قاری کا لفظ ’’أمي‘‘ کے مقابلہ پر بولا جاتا تھا اور سنت چونکہ قرآن مجید کی شرح اور تفسیر تھی، اس لیے قاری کا مطلب یہ تھا کہ قرآن اور سنت دونوں کو جانتا ہو۔
نقل کا زمانہ جس قدر دور ہوتا گیا، علوم تفسیر اور سنت کی تقیید تک کی ضرورت محسوس ہونے لگی، تاکہ یہ ضائع نہ ہو جائیں۔ اس کے لیے علم اسناد اور ناقلین کی جرح و تعدیل کی ضرورت ہوئی، تاکہ صحیح اور ضعیف میں امتیاز ہو سکے۔
اسی طرح نت نئے واقعات کے وقوع نے استخراج مسائل کی ضرورت کو پورا کیا، پھر زبان کی اصلاح کے لیے علوم عربیہ، نحو وغیرہ کی ضرورت کا احساس ہونے لگا، تو اس کے لیے علوم عربیہ کی تاسیس عمل میں آئی اور اصلاح عقائد کے متعلق علوم کلامیہ کی ایجاد کی گئی، اسی طرح اصول فقہ کے قواعد مرتب کیے گئے اور ان تمام علوم نے حرفت اور صنعت کی صورت اختیار کی اور اس کی تحصیل کے لیے تعلیم و محنت کی ضرورت پیش آئی۔ اور ہم بتا چکے ہیں کہ صنعت اور حرفت کا تعلق حضریت اور شہریت سے تھا اور عربوں کو طبعاً اس سے نفرت تھی اور عجمیوں میں حضریت کی وافر مقدار موجود تھی، وہ طبعاً حرفت اور صنعت کے لیے سازگار تھے اور یہی حال موالی کا تھا۔ نحو کے بانی سیبویہ، ابو علی فارسی اور زجاج وغیرہ تھے، یہ سب عجمی تھے، لیکن عربی تربیت کی وجہ سے انہوں نے اسے ایک صنعت کی صورت دے دی۔‘‘
اس کے بعد علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وكذا حملة الحديث الذين حفظوه علي أهل الاسلام أكثرهم عجم، أو مستعجمون باللغة والمربيٰ، و كان علماء أصول الفقه كلهم عجما كما يعرف، وكذا حملة علم الكلام، وكذا أكثر المفسرين، ولم يقم بحفظ العلم و تدوينه إلا الأعاحم، وظهر مصداق قوله صلي اللّٰه عليه وسلم: لو تعلق العلم بأكناف السماء لناله قوم من أهل فارس ۔۔ الخ‘‘ [1]
یعنی ایسے ہی حدیث کے حامل بھی اکثر عجمی تھے، اسی طرح علماء اصولِ فقہ عجمی تھے، اسی
|