حروب اور بین الاقوامی مسائل تک راہنمائی ملتی ہے اور وہ بھی وحی اور نبوت کی زبان سے، جس کے سامنے ہزار مرکزِ ملت گھٹنے ٹیک چکے ہیں اور آئندہ بھی سرنگوں رہیں گے۔ عقل و شعور کی دنیا میں ان مراکزِ ملت کو استشہاد اور یقین کا وہ مقام کبھی نہیں حاصل ہو گا جو دفاترِ سنت اور دوادینِ حدیث کو حاصل ہوا ہے۔ ﴿ فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ ﴿٤٩﴾ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنفِرَةٌ ﴿٥٠﴾ فَرَّتْ مِن قَسْوَرَةٍ ﴿٥١﴾﴾ (المدثر: 49 تا 51)
منکرینِ سنت کا عجز:
دین کی وسعت میں انکارِ حدیث سے جو خلا پیدا ہوا تھا، اسے پاٹنے کی پون صدی کی کوششیں تو ہمارے سامنے ہیں۔ اس عرصہ میں بچاری نماز ہی، ان ’’علماء‘‘ کا تختہ مشق رہی۔ آج تک یہ اربابِ تحقیق نماز کے وقت، ہئیت، اذکار، نوافل و فرائض، واجبات، رکعات اور ارکان تک کا فیصلہ نہیں کر سکے۔ جو لوگ اتحاد کا نعرہ لگا کر اختلافات سے بچنے کا عہد لے کر نکلے تھے، اب تک سراپا اختلاف ہیں۔ صرف قرآن پر اعتماد کرنے کے بعد وہ چند گھڑیاں بھی اتفاق سے نہیں گزار سکے۔
اس امتِ مسلمہ کے حج و زکوٰۃ، صوم، معاملات، معاشیات اور سیاسیات کو شکر ہے ان حضرات نے چھوا بھی نہیں۔ اگر دین کامل ہے اور اس کی تکمیل کا مطلب وہی وسعت ہے جس کا ذکر اوپر آیا ہے تو سنت اور اس کے دفاتر، احادیث اور ان کے ذخائر کو کیونکر نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ ہم نے ان حضرات کے تراجم، حواشی اور ترجمانیوں کو بڑی نیک دلی اور پورے غور سے پڑھا ہے، خدا شاہد ہے ہمیں وہاں علم و یقین کا شائبہ تک محسوس نہیں ہوا۔
انکارِ حدیث کا پس منظر:
انکارِ حدیث احساسِ کمتری کی پیداوار ہے جس نے گریز پائی کی صورت اختیار کر لی ہے۔ جب یہ حضرات کسی مخالف کا اعتراض سنتے ہیں تو چونکہ یہ قرآن و سنت اور ان کے مستند ماخذ سے واقف نہیں اور اس کی توجیہ سے ان کا ذہن قاصر ہوتا ہے، اس لیے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ نصوص کا انکار کر دیں اور احادیث کے متعلق تو وہ یہی ہتھیار استعمال کرتے ہیں کہ ہم اس حدیث کو نہیں مانتے۔ لیکن جب یہ مصیبت قرآنِ عزیز میں آ جائے اور قرآنِ عزیز ان کے تبحر فی الجہل کا ساتھ نہ دے سکے تو پھر ایسی تاویلات گھڑتے ہیں جس سے
|