عیب شمار ہونے لگی، اذہان کے خمیر میں احساس کہتری سمو دیا گیا، لوگ اپنی لا علمی، کم فہمی کا فخریہ اقرار کرنے لگے اور ائمہ اجتہاد کی طرح نصوص سے براہ راست استنباط ختم کر دیا گیا۔
فقه التقليد:
قریباً چوتھی صدی کے بعد ادلہ تفصیلیہ سے استدلال بتدریج متروک ہو گیا۔ فقہ کے مروجہ متون کو من و عن قبول کر لیا گیا۔ عام طور پر شروح میں اصل ادلہ سے بہت کم تعرض کیا گیا۔ پہلے بزرگوں سے جو کچھ منقول تھا، اس پر اکتفا کر لیا گیا۔ استدلال اور استنباط کی راہ ترک کر دی گئی۔ یہی متقدمین کی استنباط شدہ فروع کافی سمجھے گئے اور جزوی تعبیر کو، جو کسی امام نے فرمائی، شریعت سمجھ لیا گیا۔ اصل ادلہ یعنی قرآن و سنت، اجماع اور قیاس، ان سے تعرض صرف مجتہد کا وظیفہ طے پایا۔ ادلہ اجتہاد کے دروازوں پر چوتھی صدی کے بعد تالا لگا دیا گیا۔ رسالہ حمیدیہ میں ہے:
’’لكن من عصر أربع مائة من الهجرة النبوية۔ علي صاحبها أزكي صلوة و سلام۔ قال بعض العلماء الأعلام، كما ينقل من علماء الحنفية: إن باب لاجتهاد قد انسد من ذلك التاريخ‘‘ 1ھ (ص: 338)
یعنی 400ھ میں بعض علماء حنفیہ سے منقول ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا۔
یعنی یکم محرم 400ھ سے فکر و اجتہاد کے دروازہ پر تالا پڑ گیا!
یہ رسالہ ایک بہت بڑے ترکی عالم شیخ حسین آفتدی الحبری نے سلطان عبدالحمید خان کے دور حکومت میں ان کے لیے لکھا تھا۔
اس سے ظاہر ہے کہ فقہ الاجتہاد، جو مجتہدین کا وظیفہ تھا، ختم ہو گئی۔ علماءِ حدیث میں تو تفقہ کا امکان باقی رہا، لیکن حضرات احناف نے تفقہ کا دروازہ بند کر دیا۔ جو حضرات اہلحدیث پر فہم و تفقہ کا دروازہ بند فرماتے ہیں، وہ اپنے لیے محرم 400ھ سے فقہ الاجتہاد کی راہیں مسدود فرما چکے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ آپ کے ہاں ’’فقه التقليد‘‘ باقی ہو گی، یعنی پہلے بزرگوں کی مظنون مساعی پر قناعت کر لینا، لیکن یہ فقہ قطعی قابل فخر نہیں۔ آئندہ اگر ممکن ہوا، تو عرض کیا جائے گا کہ یہ فقہ جو آپ کے مدارس میں سالہا سال تک پڑھی جاتی ہے، انتہائی سطحی ہے اور اس کے اکثر مسائل ظاہریت اور حشویت پر مبنی ہیں۔ پہلے بزرگوں کے بعض قواعد اس فقہ کی بنیاد قرار پا گئے۔
|