اب جو فقیہ سمجھے جاتے ہیں، وہ بے چارے ان فروع سے آگے بڑھنے کی جرأت نہیں کرتے۔ کنز، قدوری، ہدایہ، مختصر الوقایہ، شرح الوقایہ وغیرہ کتب فقہ میں جس طرح جزئیات مرقوم ہیں، انہیں من و عن قبول کر لیا گیا ہے۔ ان کی صحت یا سقم سے بحث کا کسی کو حق نہیں دیا گیا۔ یہ قطعی حرفیت ہے اور ظاہریت۔ ابن حزم اور ان کے رفقاء نے جو طرز عمل حدیث کے ظاہر الفاظ سے روا رکھا، وہی ہمارے ان متاخرین فقہاء نے ان متون اور شروح کے ظواہر سے برتا۔ دوسروں کو حشوی اور ظاہری کہنے والے خود آراء رجال اور متقدمین اور متاخرین کے فہم پر قانع ہو گئے۔ فقہ کی ان دونوں قسموں کا تذکرہ فقہ کی کتابوں میں بصراحت موجود ہے:
’’واعلم أن الفقيه عند الأصوليين هو المجتهد فقط لا غير، كما يشهد به تعاريفهم للفقه، و عند الفقهاء الحافظ للفروع و أقلها ثلث‘‘ (القول المأمول في فن الأصول، ص: 7)
یعنی فقیہ صرف مجتہد کو کہا جاتا ہے، لیکن فقہاء کے نزدیک جو کم از کم تہائی جزئیات جانتا ہو، فقیہ ہو سکتا ہے۔
البحر الرائق میں ہے:
’’فالحاصل أن الفقه في الأصول من علم الأحكام من دلائلها فليس الفقيه إلا المجتهد عندهم، وإطلاقه علي المقلد الحافظ للمسائل مجاز، وهو حقيقة في عرف الفقهاء بدليل انصراف الوقف والوصية للفقهاء إليهم‘‘ 1ھ [1]
خلاصہ یہ ہے کہ ’’ائمہ اصول کے نزدیک فقیہ مجتہد کا دوسرا نام ہے۔ مقلد پر جسے فقہ کے کچھ مسائل حفظ ہوں، فقیہ کا لفظ مجازاً بولا جاتا ہے، جیسے اگر فقہاء کے لیے وصیت کی جائے، تو دونوں پر صادق آئے گی۔‘‘
اس صراحت کے بعد دیوبند یا بریلی کے مدارس میں جو لوگ فقہ کے مروجہ متون اور شروح پڑھتے ہیں اور ادلہ شرعیہ سے ان اجتہادات کی صحت کا موازنہ نہیں فرماتے، یہ سب حضرات ظاہری
|