(4) اوزاعی، حسان بن عطیہ، صحابہ سے۔‘‘
مولانا نے جو دلخراش ریمارک خطیب رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین کے متعلق اس حدیث کی بنا پر فرمائے ہیں، مجھے ان سے رنج ہوا۔ اس اثر کی اسناد کی تصحیح کے بعد میں محسوس کرتا ہوں کہ میں نے اپنے اسلاف کی براءت کا فرض ادا کیا۔ [1]
﴿ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا ۔۔﴾ (الحشر: 10)
اثر حسان بن عطیہ اور قرآن:
اثر حسان بن عطیہ کی تائید قرآن حکیم سے بھی ہوتی ہے:
(1) ﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴾ [2](قيامه)
آپ جلدی نہ فرمائیں، قرآن کا جمع و حفظ ہمارے ذمہ ہے، جس بیان کا تذکرہ تراخی سے کیا گیا ہے۔
یہ نزولِ قرآن اور اس کے حفظ و ضبط کے بعد ہونا تھا اور وحی جسے جبرئیل علیہ السلام لے کر نازل ہوتے تھے، اس کی ضرورت تراخی سے ہوتی ہے۔
(2) ﴿ مَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ ﴾ (الحشر: 7)
’’آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) جو کچھ آپ کو دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روکیں رک جاؤ۔‘‘
(3) ﴿ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴾ (النجم: 3، 4)
|