Maktaba Wahhabi

91 - 676
اور ہر زمانے میں اپنی دعوت اور اپنی اس حیثیت کو مستقل طور پر پیش کیا ہے۔ اس لیے مولوی عبداللہ اور ان کے اتباع اور ہم مشرب حضرات کی ان توجیہات میں کوئی معقولیت معلوم نہیں ہوتی۔ ’’الرسول‘‘ کی شخصیت کو نظرانداز کرنے کے بعد سارا کارخانہ اور دیانت کا یہ معمل پورے کا پورا غارت ہو جاتا ہے۔ قرآن اور اس کا تواتر: ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ قرآن کے ہم تک پہنچنے میں تواتر پایا جاتا ہے۔ اس میں سند کے مباحث کی ضرورت نہیں پڑتی، مگر یہ تواتر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقام پر اکیلے ہیں۔ سنت اور اس سے عقیدت رکھنے والے لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اس کی بشریت اور اس کے لوازم کی بحث آپ سے نہیں چھیڑیں گے، لیکن اگر کوئی غیر مسلم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے متعلق بحث چھیڑ دے تو تواتر سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا، کیونکہ اس تواتر میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو اکیلے ہی ہوں گے۔ مسیحی اور یہودی حضرات مسیح کی صلیب کو تواتر اور بہت بڑے اتفاق سے مانتے ہیں، لیکن اس تواتر کی انتہا اس جلاد پر ہوتی ہے جس نے آندھی اور گردوغبار کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں مسیح کو صلیب پر چڑھایا۔ نہ اس وقت وہاں یہودی موجود تھے نہ مسیح علیہ السلام کے حواری، نہ حکومت کا کوئی نمائندہ۔ قرآن عزیز نے اس تواتر کے علی الرغم مسیح کے متعلق صلیب کا انکار فرمایا اور اسی طرح حضرت مسیح کے قتل کا انکار فرمایا ہے۔ قادیانی حضرات اور اس ذہن کے لوگوں کو چھوڑ کر پوری دنیائے اسلام نے اس مشکوک تواتر کی پرواہ نہیں فرمائی، اس لیے کہ اس کی ابتداء میں تواتر نہیں۔ منکرین حدیث کے طریق فکر کے مطابق اگر پیغمبر کی عصمت، پیغمبر کا اجتہاد اور پیغمبر کی تعبیر محلِ نظر ہو تو نبوت اور اس کے عوامل سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ اس کے بعد تواتر سے آپ کو کیا فائدہ ہو گا؟ تواتر کے لیے تو ضروری ہے کہ اس سلسلے کی کوئی کڑی بھی تواتر کے موجبات سے خالی نہ ہو، اسی صورت میں وہ موجبِ یقین ہو سکتا ہے۔ اگر قرآن کی حجیت اور اس کے تواتر کو قائم رکھنے کے لیے آپ حضرات ازراہ عنایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کو اپنی مناظرانہ نکتہ نوازیوں سے معاف فرما دیں اور آپ کے ظنون و اوہام کے تیز اور تند حملوں سے اگر مقامِ نبوت محفوظ ہو جائے تو سنت کو بھی ان شاء اللہ کوئی خطرہ نہیں۔ آپ کو معلوم
Flag Counter