الاحکام بازار میں موجود۔ جمہرۃ الانساب ملتی ہے۔ ہمیں تو ان دعاوی کی صداقت مشتبہ معلوم ہوتی ہے۔ بچارے اہلِ ظاہر پر یہ کھلی تہمت ہے۔ مولانا ایسے متین آدمی کے قلم سے ایسے الفاظ نہ نکلتے تو بہتر ہوتا۔ وہ قیاس کے سوا باقی تمام مآخذ کو مانتے ہیں۔
غایت یہی ہے کہ بعض ناموں سے کسی خاص طریقِ فکر کے ساتھ تعلق اور ایک مسلک کے ساتھ ربط معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شخص جماعت اسلامی میں داخل ہوتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ شخص مولانا مودودی کی قیادت کو موجودہ قیادتوں سے بہتر سمجھتا ہے، ان پر اسے زیادہ اعتماد ہے، مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں ہو گا کہ وہ مولانا مودودی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم یا ائمہ پر ترجیح دیتا ہے۔ اسی طرح ایک اہلِ حدیث کے متعلق یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ حنفی یا شافعی طریقِ فکر کی بجائے ائمہ حدیث کے طریقِ فکر کو ترجیح دیتا ہے۔ عملی زندگی میں ائمہ حدیث پر اعتماد کرتا ہے، مگر یہ بدگمانی کیوں کی جائے کہ وہ حدیث ہی کو حجت سمجھتا اور قرآن اور اجتہاد کو نظر انداز کرتا ہے؟ ان صفحات میں مولانا کا طریقِ بحث بہت دلخراش ہے اور ثقاہت سے گرا ہوا۔ ہمیں متانت اور سنجیدگی سے شکوہ ہے کہ اس نے مولانا کا ساتھ کیوں چھوڑ دیا؟
دوسری شرط:
استفادہ کی دوسری شرط میں مولانا نے فرمایا ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو معصوم نہ سمجھے۔‘‘ (ترجمان القرآن، ص: 143)
یا اللہ! یہ کس نے کہا؟ کب کہا؟ کیسے کہا؟ واقعہ صرف اس قدر ہے کہ ائمہ حدیث نے تنقیدِ حدیث کے متعلق صدیوں محنت فرمائی۔ احادیث کی صحت، ضعف، حسن، ارسال، انقطاع، شاذ اور مقبول کے متعلق کچھ عقلی، کچھ لغوی اور عرفی فیصلے فرمائے۔ ان فیصلوں کو صدیوں سے اہلِ علم قبول فرما رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کی بلاوجہ مخالفت نہ کی جائے۔ اگر اختلاف ہو تو دلیل سے کیا جائے۔ اہلِ فن کے فیصلوں کی روشنی میں کیا جائے۔ اس کا نام عصمت نہیں۔ اس بدگمانی کے لیے ائمہ حدیث اور مسلک اہل حدیث میں کوئی گنجائش نہیں۔
پورے وثوق اور پوری ذمہ داری سے گزارش ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے متعلق عصمت کا خیال تک نہیں۔ محدثین بھی انسان ہیں اور جماعت اسلامی کی قیادت بھی انسان۔ البتہ اس
|