ہاں استدلال اور اخذِ مسائل کے وقت ہمارے نزدیک حدیث وحی ہے اور اس کا اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم دیا گیا جیسے قرآن کا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے الفاظ ہم تک پہنچائے اور احادیث کا مفہوم، اور ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں پوری امانت اور صحیح دیانت سے کام لیا ہے۔ یہی حال صحابہ رضی اللہ عنہم کا تھا۔ ہمیں ان کے علم و دیانت پر پورا یقین ہے۔
’’عن حسان بن عطية: كان جبريل ينزل بالقرآن والسنة و يعلمه إياها كما يعلمه القرآن‘‘[1](صواعق: 2/340، شاطبي، ج: 4، جامع بيان العلم ابن عبدالبر)
’’جبریل قرآن اور سنت دونوں کو لے کر نازل ہوتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سنت بھی قرآن کی طرح سکھاتے۔‘‘
اس لحاظ سے ہم وحی میں تفریق کے قائل نہیں۔ قرآن اور حدیث دونوں ماخذ ہیں اور بیک وقت ماخذ ہیں۔ اسی لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ)) [2]
حلت و حرمت اور بعض دوسرے مسائل میں سنت کو جو مستقل حیثیت حاصل ہے، اس پر ہمیں پورا یقین ہے۔ اس مقام پر جناب کا یہ ارشاد بالکل مجمل ہے:
’’دین میں ان (احادیث) کی اصل جگہ قرآن کے بعد ہے نہ کہ اس سے پہلے یا اس کے برابر، اگر کوئی شخص یہ ترتیب الٹ کر ان کو قرآن سے پہلے کر دے یا قرآن کے برابر کر دے تو وہ اسی غلو میں مبتلا ہو جائے گا جس میں اہلِ ظاہر مبتلا ہوئے، جنہوں نے ہر حدیث کو حدیثِ متواتر بنا کے رکھ دیا۔‘‘
اس چیستان کی تشریح فرمائیے۔ ہماری نظر میں تو کوئی ایسا آدمی نہیں: ’’جو حدیث ہی کو سب کچھ سمجھے، قرآن اور اجتہاد کو نظر انداز کر دے۔‘‘ (ترجمان، ص: 141)
نہ ہم نے کوئی ایسا آدمی دیکھا جو تعارض کے وقت یا طریقہ ثبوت کے لحاظ سے حدیث کو قرآن سے مقدم سمجھے۔ اہلِ ظاہر سے ابنِ حزم کی کتابیں اہلِ علم کی نظر میں ہیں۔ محلّٰی چھپ چکی۔
|