Maktaba Wahhabi

304 - 676
’’تخرّب‘‘ ہے نہ ’’تشیع‘‘، نہ ’’یک چشمی‘‘۔ تمام مآخذ کو ان کی ترتیب ہی کے لحاظ سے مانتے ہیں، البتہ مقاصد کو ضرور پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ہمارے ہاں تفقہ، درایت اور قیاس کا اپنی جگہ پر پورا پورا احترام ہے، لیکن سننِ صحیحہ کو، گو وہ آحاد ہی کیوں نہ ہوں، ہم ان حیلوں اور الفاظ کی ہیرا پھیری سے رد کرنا پسند نہیں کرتے۔ اعمالِ رجال خواہ وہ مدینہ میں ہوں یا خراسان میں، کوفہ میں ہوں یا شام میں، سنتِ صحیحہ کے ہم پایہ نہیں ہو سکتے۔ ہمارے ہاں اس وہم کی کوئی قیمت نہیں کہ فلاں شخص چونکہ مدینہ میں مقیم ہے، اس لیے اس کے اعمال سنت ہیں، بلکہ ان سے سنتِ صحیح کو رد بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہم بحمداللہ مراتب کا احترام کرتے ہیں اور جناب کی نصیحت سے بہت پہلے یہ احترام موجود ہے۔ شاہ صاحب اور خطابی نے جمعِ حدیث کے متعلق جو شکوہ فرمایا ہے، وہ اپنی جگہ پر درست ہے۔ سیوطی، ہیثمی، ابن ابی الدنیا، طبرانی، دیلمی وغیرہ نے جس طرح احادیث جمع فرمائی ہیں، اس سے واقعی اہل حدیث کے مسلک اور سلف کی روش کو نقصان پہنچا ہے۔ اہلِ بدعت بلا تحقیق ان ذخائر سے استدلال کرتے ہیں، لیکن اس میں بھی فن کے لیے کوئی عصبیت نہیں۔ سیوطی، ہیثمی وغیرہ پر عصبیت کی بدگمانی نہیں کی جا سکتی۔ طریقہ تصنیف کی ایک لغزش ہے۔ یہ حضرات خود بھی اس کے قائل نہیں کہ ان تصانیف میں جو کچھ جمع کیا گیا، وہ سب مستند اور قابلِ عمل ہے۔ مولانا اطمینان فرمائیں کہ ہمارے ہاں یہ عیب نہیں۔ جناب کے ہاں دو تین ایسے بزرگ موجود ہیں جنہوں نے اہلِ حدیث کے ہاں تعلیم پائی ہے، ان سے دریافت فرمائیے کہ جماعت اسلامی میں شمولیت سے پہلے کبھی انہوں نے اندھا دھند احادیث کو بلا تحقیق قبول فرمایا؟ یا موضوع اور مقلوب روایات کو قابلِ عمل سمجھا؟ اب اگر جماعتی عصبیت ان کے اذہان پر غالب نہیں آ گئی تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ اہلِ حدیث میں بحمداللہ یہ دھاندلی نہیں ہے، بلکہ ائمہ جرح و تعدیل اور اہلِ نقطہ و نظر کے افکار سے استفادہ یہاں کا شعار ہے۔ اول تو ہم قرآن اور حدیث، قرآن اور عقلِ سلیم، حدیث اور عقلِ سلیم میں تعارض کے قائل ہی نہیں، لیکن اگر بظاہر کہیں تعارض محسوس ہو تو اصول کی حد تک یقیناً یہی بات ہے کہ حدیث کا درجہ قرآنِ عزیز کے بعد ہونا چاہیے۔ اصولِ حدیث میں تطبیق، ترجیح، توقف کی ساری صورتیں موجود ہیں۔كما فصل في موضعه۔
Flag Counter