مولانا اصلاحی – مدظلہ – تنقیدِ حدیث کے منصب کو اور بھی کھلا رکھنے کی کوشش فرماتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
’’وہ (نقاد حدیث) اخلاقی اعتبار سے بھی اتنا بلند ہو کہ اس نے دین بازی کو اپنا مشغلہ نہ بنا رکھا ہو، وہ حدیث پر نقد و تبصرہ کا اہل ہو۔ یہ منصب نہ ہر ملائے مکتبی کا ہو سکتا ہے نہ دفتر کے کلرکوں کا۔‘‘ (ترجمان، ج: 25 عدد: 2/ ص: 148)
پھر فرماتے ہیں:
’’مشائخ کی اسانید، رسمی علوم کی تحصیل، مدارس کی تعلیم سے بھی یہ اہلیت حاصل نہیں ہوتی کہ حدیث پر تنقید کر سکے، بلکہ میرے نزدیک ایک آدمی کے علم و فضل کی بہترین سند اور بہترین شہادت اس کے اپنے کارنامے اور اس کی دینی خدمات ہیں۔‘‘
اصولاً کارناموں کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن اس معیار کے خطرات کو مولانا نے محسوس نہیں فرمایا۔ مرزا غلام احمد، عنایت اللہ خاں المشرقی اور پرویز وغیرہ حضرات تنقید کا حق اور حدیث کے رد و قبول میں حکم کی حیثیت اپنے کارناموں ہی کی بنا پر منوانا چاہتے ہیں۔ آپ رسمی علوم اور مشائخ کی اسانید کو نظر انداز فرما کر بعض اعتراضات سے بچ گئے ہیں، مگر کارناموں اور خدمات کے عموم سے ایک دوسری مصیبت کی ذمہ داری آپ نے اپنے سر لی ہے۔ یہ آوارہ مزاج حضرات ’’کارناموں اور خدمات‘‘ کو اس طرح پھیلائیں گے کہ عوام کو ان کی گرفت سے بچانا مشکل ہو گا۔ مودودی صاحب کو بچا کر سارے فن کو مصیبت میں ڈالنا مناسب نہ ہو گا۔ ”حفظت شيئاً و غابت عنك أشياء“۔ معیار اگر ’’کارنامے اور خدمات‘‘ ٹھہرا تو ان کی نوعیت ہر پانچ دس سال بعد ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔
خدمات اور کارنامے:
خدمات اور کارنامے اگر حدیث پر تنقید کا معیار قرار دیے جائیں تو ان کے لیے کوئی پابندی ہونی چاہیے۔ ہمارے آخری دور میں نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ، مولانا عبدالحی لکھنوی، مرزا غلام احمد، مولوی احمد رضا خاں صاحب تصنیف و تالیف کے لحاظ سے مشہور ہیں۔ کیا ان سب کو حدیث پر تنقید کا حق دیا جائے گا؟ درس و تدریس کے مشاغل میں سید احمد خاں مرحوم، مولانا سید نذیر حسین صاحب رحمہ اللہ اور مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ کے کارنامے اور خدمات دنیا کو معلوم ہیں، لیکن تنقید کا حق کون سی خدمات اور کارناموں کے بعد دیا جائے گا؟
|