چاہیے۔ اسی طرح جو لوگ احادیث کی صحت کو اپنی ’آزاد عقل‘‘ کے معیار پر رکھنا چاہتے ہیں، ان سے بھی ادباً عرض کیجئے کہ رسول کی ’’مزاج شناسی‘‘ کا یہ انداز درست نہیں ؎
ایاز قدر خویش بشناس! [1]
قصہ غرانیق:
حدیثِ غرانیق کے متعلق میں نے عرض کیا تھا کہ محدثین کے نزدیک یہ ساقط الاعتبار ہے اور جن الفاظ سے محدثین نے اسے قابل استناد سمجھا ہے، اس میں کوئی خلش نہیں۔ [2]
ماہر صاحب فرماتے ہیں: ’’یہ عجیب تضاد ہے‘‘!
کیا عرض کیا جائے ؎
جو چاہے آپ کا ’’علم‘‘ کرشمہ ساز کرے
میری تو پھر بھی یہی مؤدبانہ گزارش ہے کہ حدیثِ غرانیق مختلف طرق اور الفاظ سے مروی ہے۔ جن طرق میں غرانیق کا صراحتاً ذکر ہے، اس کے تمام طرق مرسل ہیں۔ ایک مرسل طریق کے متعلق سیوطی فرماتے ہیں:
’’مرسل صحيح الإسناد‘‘ (روح المعاني، ص: 176، پاره 17) [3]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابن جبیر کے سوا تمام طریق ضعیف اور منقطع ہیں۔ بزار کا طریق متصل اور صحیح ہے۔ کثرتِ طرق کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ قصہ کی کچھ اصل ہے۔‘‘ [4] (روح المعاني، ص: 178، ملخصاً)
|