Maktaba Wahhabi

348 - 676
یہ حوالہ کافی لمبا اور بہت مفید ہے۔ میں نے اختصار کے لیے اسے ’’مُثله‘‘ (بقول ماہر صاحب) کر دیا ہے۔ صواعق ملاحظہ فرما لیں! حافظ ابن قیم نے فرمایا ہے کہ علی بن مدینی اور تمام اہل علم، جو احادیث کو مفید علم سمجھتے ہیں، وہ ابن حزم کے ہم زبان ہیں، اور حدیث کو ’’ذكر‘‘ میں شامل سمجھتے ہیں۔ مے خانہ سنت میں سرشاروں کی کمی نہیں؎ ’’جنید و شبلی و عطار شد مست‘‘ (6) ’’عن الأوزاعي عن حسان بن عطية قال: كان جبريل عليه السلام ينزل علي النبي صلي اللّٰه عليه وسلم بالسنة كما ينزل عليه بالقرآن، ويعلمهم إياها كما يعلمه القرآن‘‘ (الرد الوافر، ص: 3، موافقات شاطبي: 4/26) [1] یعنی جبریل علیہ السلام سنت بھی قرآن کی طرح نازل فرماتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی طرح اس کی تعلیم دیتے۔ (7) حدیث: ((أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ)) [2]سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ جہاں تک سنت کے انتساب اور استناد کا تعلق ہے، وہ قرآن ہی کی طرح ہے۔ دونوں کا منبع ایک ہی ہے، لیکن حفاظت کے طریقے دونوں جگہ مختلف ہیں۔ قرآن جس طرح متواتر ہے، سنت اس طرح متواتر نہیں۔ اس حیثیت سے سنت کا مرتبہ واقعی قرآن کے بعد ہے، البتہ قرآن کی توضیح اور تفسیر میں سنت کا مقام سب سے پہلا ہے۔ اس لیے ماہر صاحب کا یہ ارشاد بالکل درست ہے کہ ’’جہاں تک قرآن کی حرف بحرف محفوظیت اور اس کے لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ہونے کا تعلق ہے، احادیث کو ٹھیک اس درجہ میں رکھنا ناپسندیدہ غلو ہے۔‘‘ [3] اگر کوئی ایسا خیال کرے اور بحمداللہ اہل حدیث اس خیال کے نہیں، تو اسے سختی سے روک دینا
Flag Counter