Maktaba Wahhabi

132 - 676
اصول حدیث کے قواعد کا تعلق یا لغت سے ہے یا واقعات سے یا پھر ان کا تعلق عقل سے ہے جو بحث و نظر کے بعد مناسب حد تک پہنچ چکے ہیں۔ اب ان حقائق کو محض احتمالات سے نہیں بدلا جا سکتا۔ بعض مثالیں: (1) مثلاً امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ راوی اور مروی عنہ میں ملاقات ممکن ہو تو یہ اتصال کے حکم میں ہو گا۔ وہ یہ ضروری نہیں سمجھتے کہ فی الواقع ان دونوں میں ملاقات ثابت کرنے کی کوشش کی جائے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کم از کم ان دونوں میں ایک دفعہ فی الواقع ملاقات ضروری ہے، ورنہ اتصال مشکوک ہو گا۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے مقدمہ صحیح مسلم میں اس بحث کو نکھارنے کی کوشش کی ہے، لیکن جمہور ائمہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے خیال کو بحث کی تکمیل سمجھا۔ اب مزید یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہر روایت کے لیے بار بار ملاقات ضروری ہے۔ آپ غور فرمائیں یہ خیال بدگمانی کے مترادف ہے۔ ایک آدمی کی صداقت جب ایک دو دفعہ ثابت ہو جائے، پھر بلاوجہ اسے جھوٹ سے مہتم نہیں کیا جا سکتا۔ (2) اہل بدعت کی روایت کے متعلق ائمہ میں اختلاف تھا۔ بعض نے اس کی روایت کو مطلقاً رد کیا۔ بعض نے بلا شرط قبول فرمایا۔ بالآخر یہی رائے قائم ہوئی کہ اگر راوی بدعت کا داعی ہو تو اُس کی روایت مقبول نہیں ہو گی اور اگر روایت میں بدعت کی حمایت ہو تو بھی روایت مقبول نہیں ہو گی، البتہ نفس مسلک اور عقیدہ کو روایت کے قبول اور رد میں ائمہ حدیث کے نزدیک کوئی دخل نہیں، اس لیے وہ شرط مذکور کے ساتھ شیعہ اور خوارج کی روایت کو اختلاف کے باوجود قبول فرماتے ہیں۔ [1] غرض یہ کہ اصولِ حدیث میں جمود نہیں، بلکہ اس میں ارتقاء کے لیے پوری پوری استعداد موجود ہے، لیکن جب بحث و نظر ایک خاص نکتہ پر پہنچ جائے تو گفتگو کی گنجائش خود ہی ختم ہو جاتی ہے۔ بحث و نظر کے بعد اہل فن ایک مقام پر پہنچ جانے کے بعد بحث کی گنجائش یا ضرورت نہیں سمجھتے۔ یہ فن میں جمود نہیں بلکہ تکمیل ہے، لیکن ہر فن کی تکمیل کے مراحل کا صحیح فیصلہ ماہرینِ فن ہی کر
Flag Counter