[1]میں بیان کیا گیا ہے۔
شیخ عبدالعزیز بن احمد البخاری رحمہ اللہ (428ھ) نے شرح اصول بزدوری میں فرمایا ہے:
’’لأن قوله ۔عليه السلام۔ حجة مثل الكتاب‘‘ (كشف الأسرار:679) 1
جہاں تک حجیتِ حدیث کا تعلق ہے، ائمہ سنت میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
روایت و اسنادِ حدیث:
قرآن و حدیث کے ہم تک پہنچنے میں فرق ہے۔ قرآن عزیز جس طرح نازل ہوتا گیا، ہزاروں صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھتے اور یاد کرتے رہے، پھر یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ہزاروں لوگ ایک دوسرے سے پڑھتے رہے۔ اسلامی ممالک میں جس قدر وسعت ہوئی، قرآن کی اشاعت بھی اسی قدر وسیع پیمانہ پر ہوتی رہی۔ فتوحات کے لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی سال مشہور ہیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے متعدد نسخے خاص رسم الخط سے نقل کرائے اور ہر صوبہ و کمشنری میں ایک ایک نسخہ بھیج دیا، 2[2] تاکہ عجمی ممالک تصحیحِ الفاظ و مخارج کے لیے اس اصل کی طرف رجوع کریں۔ اس نسخہ کی خصوصیت یہ تھی کہ قراءت سبعہ متواترہ اس کے رسم الخط میں جمع کر دی گئی تھی۔ اس نسخہ کی نقل میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نسخہ، جو ان کی زندگی میں لکھا گیا تھا، وہ بطور اصل استعمال ہوا 3[3] اور احتیاطاً حفاظِ قرآن اور انفرادی دستاویز بھی زیر نظر رکھ لی گئیں۔ حفاظ کی ایک جماعت نے اس کی پوری نگرانی کی۔4 [4] والتفصيل في الملل والنحل لابن حزم[5]5
جہاں نقل میں یہ احتیاط برتی گئی، وہاں حفاظ کی تعداد لاکھوں تک پہنچ ہوئی تھی اور قدرتی طور
|