Maktaba Wahhabi

419 - 676
کی فتوحات فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوئیں۔ فردوسی کے اشعار کسریٰ کی زبان سے ہیں، جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی گرامی نامہ کے تاثرات کا نتیجہ کہنا چاہیے۔ پس موصوف کا یہ ارشاد کہ ’’مفتوح ہونے کے بعد بھی عربوں سے اپنی قلبی نفرت کا اظہار ان الفاظ میں کیا، جو ہزار سال سے فضائے عالم میں گونج رہا ہے۔‘‘ تاریخی حقائق کے بالکل خلاف ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتی خطوط صلح حدیبیہ کے بعد لکھے اور یہ انداز 6، 7ھ کے قریب ہوں گے۔ اس وقت فارس کی فتح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انداز ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کسی بہت بڑے شکار کے لیے جال پھیلا رہے ہیں، مگر ’’عنقارا بلند است آشیانہ‘‘[1]یہ تجربہ شاید یہاں کامیاب نہ ہو! جزیرۃ العرب: موصوف کا یہ ارشاد ’’اس خطہ ارض کا کوئی نام ہی نہ تھا۔‘‘ بھی کوئی تاریخی حقیقت نہیں رکھتا۔ جناب نے خود اسے جزیرۃ العرب سے تعبیر فرمایا ہے۔ عرب اول اپنے اشعار میں اس کے مختلف حصوں کے کئی نام ذکر کرتے ہیں۔ نجد، تہامہ، حجاز، عراق، عسیر، بحرین وغیرہ اسی جزیرہ کے مختلف حصوں کے نام ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ موصوف ایسے علم دوست کو اپنے اس ارشاد پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ﴿وَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ﴾ (إبراهيم: 37) صرف بلد الحرام اور اس کے اطراف کو فرمایا گیا ہے، ورنہ عرب کے بعض حصے کافی زرخیز ہیں۔ محترم! پنشن مل چکی ہے، دنیا کے دھندے چھوڑئیے، سنت کے مطابق حج فرمائیے۔ وادی فاطمہ، طائف، مدینہ منورہ سے آپ کو معلوم ہو گا کہ پورا ملک ﴿وَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ﴾ نہیں ہے۔ یہ حقائق کی تعبیر حقیقت کے خلاف فرمائی گئی ہے۔ عربوں کی تاجرانہ یورشوں پر غور فرمائیں، عرب تاجر شام، عراق اور ایران کے لیے سفر کرتے تھے۔ عرب کی منڈیوں کی فہرست الأغاني اور العمده وغیرہ میں پڑھیں۔ [2] عربوں کی تعلقات کم و بیش سب ملکوں سے تھے۔ جب فتوحات کا دور آیا تو عربوں نے ان تمام جغرافیائی حدود کو عبور کر لیا اور چند سالوں میں ایران کی فتح مکمل ہو گئی۔
Flag Counter