Maktaba Wahhabi

143 - 676
ایک غیر معقول بات: جسٹس محمد شفیع فرماتے ہیں: ’’پس یہ امر بالکل واضح ہے کہ قرآن کا پڑھنا اور سمجھنا ایک دو آدمیوں کا مخصوص حق نہیں۔ قرآن سادہ اور آسان زبان میں ہے، اسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا حق ہے جو ہر مسلمان کو دیا گیا ہے اور کوئی شخص خواہ کتنا ہی فاضل یا عالی مقام کیوں نہ ہو، وہ مسلمان سے قرآن پڑھنے اور سمجھنے کا حق نہیں چھین سکتا۔‘‘ (بحوالہ منصب رسالت نمبر، ص: 247) پھر فرماتے ہیں: ’’اس دنیا میں چونکہ انسانی حالات اور مسائل بدلتے رہتے ہیں، اس لیے اس بدلتی ہوئی دنیا کے اندر مستقل ناقابل تغیر و تبدل احکام و قوانین نہیں چل سکتے۔ قرآن مجید بھی اس عام قاعدے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔‘‘ (بحوالہ منصب رسالت نمبر، ص: 247) ظاہر ہے یہ ارشادات اتنے اونچے مقام سے ہو رہے ہیں جہاں معقولیت اور دانش مندی کے سوا کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی، لیکن اگر قرآن کی تفسیر اور تشریح کا حق ہر آدمی کو دیا جائے اور اس کے لیے کوئی معیار علم نہ رکھا جائے تو کیا قانون کے متعلق بھی ایسی کشادہ دلی سے اجازت دی جائے گی؟ چونکہ قانون کا تعلق عامۃ الناس سے ہے، اس لیے قانون کے فہم اور توجہ کا حق چند قانون دانوں کو نہیں دیا جا سکتا، جیسے اس کے لیے معقول وجہ نہیں کہ چند بوریا نشین یا ائمہ مساجد قرآن فہمی اور تفسیر کے حق پر قابض ہو جائیں، اسی طرح کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کہ چند وکیل یا جج قانون فہمی کے حق پر قابض ہو جائیں۔ اگر قانون کے تحفظ کے لیے کوئی دلیل مل گئی تو امید ہے بلکہ یقین ہے وہ دلیل قرآن و سنت کی تشریح کے لیے بھی کارآمد ثابت ہو گی۔ اسی طرح اگر یہ صحیح مان لیا جائے کہ بدلتے ہوئے حالات میں مستقل قانون قبول نہیں کیا جا سکتا، اس لیے قرآن کو بھی کسی وقت آپ کے سامنے سر بسجود ہونا ہو گا۔ تو پھر یہ فرمایا جائے کہ وحی الٰہی اور خدا کے علم کے التواء اور ذاتِ حق کی ہمہ دانی کا مطلب کیا رہا؟ انسانی قوانین اور الٰہی قوانین میں مابہ الامتیاز کیا ٹھہرا؟ اس پر اس کے سوا ہم کیا عرض کر سکتے ہیں کہ ۔۔ ایاز! قدر خویش بشناس۔
Flag Counter