’’والذكر اسم واقع علي كل ما أنزل اللّٰه علي نبيه صلي اللّٰه عليه وسلم من قرآن أو من سنة‘‘ (الإحكام: 1/121)
’’ذکر کا لفظ قرآن اور سنت دونوں کو شامل ہے۔‘‘
اس کی تائید قرآن عزیز سے بھی ہوتی ہے:
﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ﴾ (النحل: 44)
’’ہم نے تم پر ذکر اس لیے نازل کیا کہ تم ’’ مَا نُزِّلَ ‘‘ کو بیان کرو۔‘‘
﴿ مَا نُزِّلَ﴾ اور ﴿ الذِّكْرَ﴾ میں اتنا ہی فرق ہے، جس قدر کہ ’’بیان‘‘ اور ’’البیان‘‘ میں ہے، اس لیے اس آیت میں ’’الذِّكْرَ‘‘ کا مطلب یہاں حدیث ہی ہو سکتا ہے۔
حدیث کیا ہے؟
(1) یہ لفظ قرآن مجید پر بھی بولا گیا ہے: ﴿ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ ﴾ (الأعراف: 185)
(2) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ﴿ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا ﴾ (التحریم: 3)
(3) تباہ شدہ قوموں کے تذکرے: ﴿ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ ﴾ (سبأ: 19)
(4) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال، افعال اور تقریر۔ (علامہ طیبی رحمہ اللہ) (تدريب الراوي)
(5) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریر۔
’’قال شيخ الإسلام ابن حجر في شرح البخاري: المراد بالحديث في عرف الشرع ما يضاف إلي النبي صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ (تدريب الراوي، ص: 4)
قال في منهج الوصول: ’’سلف اطلاق لفظ حدیث بر اقوال و افعال و تقاریر صحابہ و تابعین و آثار و فتاویٰ می کردہ انداما لغۃً و تجوزاً حقیقۃ و اولی ہمیں ست کہ ایں لفظ خاص دارند بقول نبوی و بر مقولات دیگرے اطلاقش نہ کنند تا غیر حدیث ملتبس بحدیث نشود زیرا کہ قول غیر وے صلی اللہ علیہ وسلم صحابی باشد تابعی ہم وزن قول معصوم نیست و احتجاج مستقل نمیرسد۔‘‘ [1]
|