’’درایتِ حدیث میں حدیث کے مطلب اور مراد سے عربی قواعد اور شریعت کے ضوابط اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کے مطابق بحث کی جاتی ہے۔‘‘
تاش کبریٰ زادہ صاحبِ کشف الظنون، اصولِ حدیث اور درایتِ حدیث کو ایک ہی فن تصور فرماتے ہیں۔ (1/366)
اس درایت میں، اور جو درایت آج کل ہمارے بازار میں بک رہی ہے، بڑا فرق ہے۔ مصطلح درایت میں علم ہے اور بصیرت ہے جبکہ ہمارے بازار کی درایت میں ذہنی آوارگی اور پریشان خیالی ہے۔ شریعت میں عموماً اور حدیث میں خصوصاً اس قسم کی بے قاعدگی اور آوارگی کو جگہ نہیں دی جانی چاہیے۔ سرسید احمد خاں مرحوم نے اسی درایت کے حوصلہ پر جھٹکے اور حلال کو برار کر دیا تھا۔ وہ دونوں کو حلال سمجھتے تھے۔
مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی:
مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کا سکولِ فکر مولانا شبلی اور سرسید کے سکولِ فکر سے ملتا جلتا ہے۔ یہ حضرات بھی تفقہ اور درایت کے غائبانہ عاشق ہیں، مگر یہ ظاہر نہیں فرماتے کہ ان کے ہاں درایت کا کیا مفہوم ہے۔ مولانا شبلی نے جب درایت کی بحث چھیڑی تو اہلِ حدیث علماء نے ان کا اس طرح تعاقب فرمایا کہ اس بحث کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہا۔ فقہاء اور محدثین کی خدمات کو پوری طرح واضح فرمایا۔ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کی ’’حسن البیان‘‘، مولانا ابو یحییٰ شاہ جہان پوری کی ’’الارشاد‘‘ اور مولانا عبدالسلام مبارک پوری کی ’’سیرۃ البخاری‘‘ میں یہ موضوع اس طرح چھان پھٹک کر رکھ دیا گیا کہ آئندہ اس پر تفصیلاً لکھنے کی کسی کو جرأت نہ ہو سکی۔
مودودی صاحب نے دانشمندی سے کام لیا، درایت کو گول مول کر دیا۔ کچھ نہیں فرمایا کہ درایت سے ان کی کیا مراد ہے اور وہ کون سے اصول ہیں جو فقہاء نے اس کے متعلق وضع فرمائے؟ البتہ محدثین پر تنقید فرماتے ہوئے ارشاد ہے:
’’وہ محدثین زیادہ سے زیادہ یہی کہتے تھے کہ اس حدیث کی صحت کا ظن غالب ہے۔ مزید برآں یہ ظن غالب جس بنا پر ان کو حاصل ہوتا تھا، وہ بلحاظ روایت تھا نہ بلحاظِ درایت، ان کا نقطہ نظر زیادہ تر اخباری ہوتا تھا، فقہ ان کا اصل موضوع نہ تھا۔‘‘ الخ (مسلکِ اعتدال، ص: 319)
|