تعصب سے اختلاف ہے کہ ایک جماعت اپنی عقیدت مندی سے کسی اپنے بزرگ یا قائد کو خدا کا مزاج شناس سمجھ لے یا ’’رسول کا مزاج شناس‘‘ تصور کر لے، پھر اسے اختیار دے دے کہ اصولِ محدثین کے خلاف جس حدیث کو چاہے قبول کرے، جسے چاہے رد کر دے یا کوئی عالم، قائد بلاوجہ کسی موضوع یا مختلق، مرسل یا منقطع کے متعلق یہ دعویٰ کر دے کہ میں نے اس میں ’’ہیرے کی جوت دیکھ لی ہے۔‘‘ یہ مضحکہ خیز پوزیشن ہمیں یقیناً ناگوار ہے۔ ہم ان شاء اللہ آخری حد تک اس کی مزاحمت کریں گے اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ہوائی حملوں بچانے کی کوشش کریں گے۔
ہمیں معلوم ہے ہیرا ملے یا اس کی جوت، یہ صرف وہی جوہری جان سکتے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا سنت ہے اور جن کا شب و روز کا مشغلہ سنت ہے۔ مزاج شناسی بھی انہی کا حصہ ہے۔ مولانا فرمائیں! متعصب وہ لوگ ہیں جو قواعد اور اصول کا احترام کرتے ہیں یا وہ حضرات جو مفت میں جوہری بن جائیں یا ان کے دوست انہیں مزاج شناس رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا دیں ۔۔! ﴿ إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللّٰه بِهَا مِن سُلْطَانٍ ﴾ (النجم: 23)
یہ فن کی قدر اور ہنر کے احترام کا مسئلہ ہے، اس میں عصمت کی کوئی بات نہیں۔ یہ ترجمانی غلط ہے اور بالکل غلط – اور انتقامی جذبہ کی پیداوار۔ مولانا نے اس مقام پر اہلِ فن کے متعلق جن شبہات کا اظہار فرمایا ہے، اخبارِ آحاد کے خلاف جو احتمالات پیدا کیے اور انسانی فہم میں جن غلط فہمیوں کی نشاندہی فرمائی ہے، اسے ممکن سمجھنے کے بعد عرض ہے کہ جو لوگ آج صدیوں کے بعد ان اغلاط پر مواخذہ کریں گے، ان اغلاط اور غلط فہمیوں کی ٹوہ لگائیں گے۔ آیا مولانا اور ان کے رفقاء ان کے متعلق عصمت کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ وہ یقین فرما سکتے ہیں کہ ان مواخذات میں کوئی لغزش نہیں؟
یقیناً آپ ایسا فرمائیں گے تو خدارا بتایا جائے کہ آپ ظن کو صدیوں کے ظن سے ٹکرا کر ایک ظنی نتیجہ پر پہنچتے ہیں اور اسے ’’ہیرے کی جوت‘‘ یا ’’رسول کی مزاج شناسی‘‘ سے تعبیر فرماتے ہیں، لیکن اگر اصحابِ وقت کے بروقت فیصلے اور صدیوں کی محنت کے نتائج پر اعتماد کیا جائے تو اس کا نام آپ کی اصطلاح میں عصمت کا دعویٰ ہے۔ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ؟
متقدمین ائمہ کی تنقید اور دلائل پر کوئی یقین کرے تو اس پر عصمت کی پھبتی اور آج اپنی معلومات کی روشنی میں صدیوں بعد کوئی ظنی فیصلہ ان قانونی فیصلوں کے خلاف آپ کریں تو اس کا
|