اور حشوی ہیں۔ یہ مروجہ متون اور شروح و حروف پر اعتماد اور یقین رکھتے ہیں۔ ادلہ تفصیلیہ سے فہم و استدلال کا ان پر ’’تالا بند‘‘ ہے۔ جب تک مروجہ تقلید سے براءت کا اعلان نہ فرمائیں، ہمارے یہ جدید مصنف اور ان کے رفقاء غور فرمائیں فقہ سے محروم اہلحدیث ہیں یا آپ حضرات؟ ’’تالا بند‘‘ تو آپ حضرات نے خود فرما دیا، وجوب تقلید کے بعد تالا کھلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
صاحب مسلّم الثبوت فقہ کی تعریف میں فرماتے ہیں:
’’الفقه حكمة فرعية شرعية، فلا يقال علي المقلد لتقصيره عن الطاقة‘‘ (1/5، طبع مصر)
’’فقہ فروع شرعیہ حقیقہ کا نام ہے، پس مقلد کو فقیہ نہیں کہا جائے گا، کیونکہ اسے حقیقت تک رسائی کی ہمت ہی نہیں۔‘‘
نہ اسے اجازت ہے کہ ادلہ تفصیلیہ میں فقہ و درایت کی روشنی میں غور کرے۔
مسلّم الثبوت کے مصنف ’’منهيات‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اعلم أن الفقه في القديم كان متناولا لعلم الحقيقة، وهي علم الإلٰهيات، و علم الطريقة، وهي مباحث المهلكات والمنجيات، وعلم الشريعة الطاهرة، ومن ثم عرفه أبو حنيفة بمعرفة النفس ما لها وما عليها، وسمي كتابه في العقائد بالفقه الأكبر، وقال اللّٰه تعاليٰ : ﴿لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ﴾ ثم لما تصدي قوم بالبحث عن العقائد، وسموا العلم الكافي بذلك بالكلام، اختص الفقه بالمطالب العلمية الشاملة للتصرف أيضا، وهو علم الأخلاق ومن ثم قال بعض المحققين في شرح المنهاج: إن تحريم الريا والحسد من الفقه، وصار هذا عرفا، واستمر عليه زمان مديد، ثم حدث في زمان لاحق اختصاص الفقه بالأحكام الظاهرة، ومن ثم تري كتب الفقه للمتأخرين خالية من علم الطريقة‘‘ 1ھ (مسلّم الثبوت، ص: 5 مصر)
’’یعنی فقہ کا لفظ ابتدا میں الٰہیات اور علم طریقت پر بولا جاتا تھا، اسی لیے امام صاحب نے فرمایا: یہ نفس کی ذمہ داریوں کی معرفت کا نام ہے۔ اور امام صاحب نے اپنی کتاب
|