(1) اس میں کوئی علمی یا تاریخی نقطہ نہیں۔
(2) ایک سلبی واہمہ ہے، جسے قرینہ کہنا بھی مشکل ہے، البتہ شبہ کہا جا سکتا ہے۔
(3) اس جواب کا انداز یہ ہے جیسے ایک شریر الطبع لیکن کمزور لڑکا اپنی آبرو سے بے نیاز ہو کر ساتھیوں کو چھیڑنا شروع کر دیتا ہے اور جب رفقاء کے حملوں کی مدافعت نہیں کر سکتا تو شور، ہنگامے اور بدزبانی سے اس کسر کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، شاید کوئی ناواقف اس کا ہمدرد بن جائے۔
علم اور عقل کی دنیا میں غالباً آپ کا کوئی غم گسار نہیں۔ حدیث پر آپ حضرات کے شبہات کی بنا قلتِ علم اور قلتِ مطالعہ پر ہے۔ ادارہ طلوع اسلام کے انداز فکر نے تحریک کو اور بھی عامیانہ اور علم و فکر کی حدود سے بہت دور ڈال دیا ہے۔ اب غوغا آرائی کے سوا علمی ذوق اور فکری پیاس کے لیے اس پورے ادارہ کے پاس کچھ نہیں۔
یہ گزارش جناب سے مخلصانہ مراسم کی بنا پر کی ہے، مجھے امید ہے کہ میرے اس اندازِ جسارت کو جناب میرے اخلاص پر مبنی سمجھیں گے۔
میرا خیال تھا کہ جناب عمر کا آخری حصہ قرآن اور سنت کی خدمت میں صرف فرماتے، شاید پہلی عمر کی لغزشوں کا کفارہ ہو جاتا، مگر افسوس ہے کہ آپ کے مطالعہ کا رخ بے حد غلط طرف پھر گیا اور آپ بڑے غلط ماحول میں گرفتار ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے آپ کی مخلصی کا سامان پیدا کر دے اور آخر عمر میں آپ سے دین کی خدمت لے۔ آپ کا حشر قیامت میں اپنے اکابر کے ساتھ ہو، جو بحمداللہ کتاب و سنت کے پابند تھے۔
|