قرآن کا مفہوم عمل کے لیے سنت کی توضیح کے بغیر صاف نہیں اور یہ دلیل ہے کہ سنت حجت ہے۔
3۔ ﴿إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْ﴾ (المائدة: 6)
’’جب نماز کا ارادہ کرو تو منہ کو دھو لو اور ہاتھوں کو کہنیوں تک اور سر کا مسح کرو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو ڈالو۔‘‘
4۔ ﴿وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم﴾ (المائدة: 6)
’’اگر بیماری کی وجہ سے پانی کا استعمال مضر ہو یا حالتِ سفر اور پیشاب یا پاخانہ یا لمس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جائے اور پانی دستیاب نہ ہو سکے، تیمم کے لیے پاکیزہ مٹی منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ اللہ تعالیٰ مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا اور اپنی نعمت کو پورا کرنا چاہتا ہے تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
اس آیت میں وضو اور تیمم کی وضاحت کی گئی ہے۔ وضو اس سے پہلے موجود تھا۔ 12 نبوی بوقت معراج نماز فرض ہوئی۔ وضو بھی اس وقت بتایا گیا۔ چنانچہ آٹھ سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس ہدایت کے مطابق نماز ادا فرماتے رہے اور باوضو نماز ہوتی رہی۔ آٹھ سال کے بعد 6 ہجری میں سورہ مائدہ نازل ہوئی۔ اس میں وضو کی ترتیب بتا کر آٹھ سال کے عمل کی تائید فرما دی گئی۔ اگر حدیث حجت نہ تھی تو وضو کیوں کیا گیا؟ ہو سکتا ہے کہ اپنے مسلک کے پچ میں بے وضو نماز پڑھنے کو ترجیح دی جائے، لیکن شاید عمل اس کے خلاف ہے۔
آیت کے دوسرے حصے میں تیمم کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس میں ہاتھوں کا ذکر آیا ہے لیکن حد نہیں بتلائی گئی، آیا اس میں کلائی تک ہاتھ شامل ہو گا یا مرفقین تک یا بغل تک؟ کوئی وضاحت بھی قبول کی جائے، اس کی بنیاد سنت پر ہو گی۔ قرآن اس میں خاموش ہے اور قرآن خود توجہ دلاتا ہے۔ ان احکام کی عملی صورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے معلوم ہو گی اور یہ حجیتِ سنت کے لیے ایک اضطراری دعوت ہے۔
|