Maktaba Wahhabi

140 - 676
اعتماد اور صحیح احادیث کی نہیں ہو سکتی۔ دوم: یہ کہ تدوین شدہ کتب میں احادیث کی تعداد بمشکل ہزاروں تک پہنچتی ہیں، اس لیے اس تعداد کے علاوہ باقی سب موضوعات ہیں۔ بخاری میں مع مکررات تقریباً سات ہزار احادیث ہیں، لیکن مکررات کے علاوہ احادیث کی تعداد قریب قریب چار ہزار ہے۔ اسی طرح مسلم نے اپنی صحیح کو کئی لاکھ احادیث سے انتخاب فرمایا۔ اس فن سے بے خبر شخص یہ سمجھتا ہے کہ ان ائمہ نے جو احادیث ترک کی ہیں اور ان کی کتابوں میں ان کا ذکر نہیں آیا، وہ سب غلط ہیں اور موضوع۔ تقریباً اسی قسم کے خیالات کا اظہار جسٹس محمد شفیع صاحب نے اپنے اُس فیصلہ میں فرمایا ہے جو انہوں نے حضانت کے متعلق کیا۔ (بحوالہ منصب رسالت نمبر، ص: 244) یہ دونوں شبہات قلتِ مطالعہ اور لاعلمی پر مبنی ہیں۔ محدثین علی الاطلاق احادیث کی تعداد کا ذکر کرتے ہیں تو اس وقت وہ حدیث کو عام معنی میں لیتے ہیں۔ یعنی مرفوع، موقوف، آثار، تعدادِ اسانید اور احادیث کے متعدد طرق، حتیٰ کہ محدثین کی تفاسیر میں ائمہ سلف سے الفاظ کے مفہوم میں جو مختلف اقوال منقول ہیں، ان کو بھی وہ حدیث ہی تعبیر فرماتے ہیں، بلکہ صرف ضعاف اور موضوعات پر حدیث کا لفظ تو بولا ہی جاتا ہے۔ اس عام معنی کی روح سے حدیث کی تعداد واقعی لاکھوں تک جا پہنچتی ہے، لیکن موضوعات کو الگ کیا جائے اور تکرارِ اسانید کو بھی نظر انداز کیا جائے تو احادیث کی صحیح تعداد پچاس ہزار بھی نہیں ہو پاتی۔ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قال العراقي: في هذا الكلام نظر، لقول البخاري: أحفظ مائة ألف حديث صحيح، ومائتي ألف حديث غير صحيح، قال: ولعل البخاري أراد بالأحاديث المكررة الأسانيد والموقوفات، فربما عد الحديث المروي بإسنادين حديثين‘‘ (تدریب الراوی، ص: 29) یعنی امام بخاری جب لاکھوں احادیث کا ذکر فرماتے ہیں، تو ان کی مراد اسانید اور موقوفاتِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے فتاویٰ وغیرہ سب ہوتے ہیں۔ تکرارِ سند سے جب ایک متن بار بار مروی ہو تو اسے وہ متعدد احادیث تصور فرماتے ہیں۔
Flag Counter