(10) حقیقت یہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ خود بھی اہل مدینہ کو یہ اہمیت نہیں دیتے جو اُسے مولانا دے رہے ہیں۔ وہ سنتِ صحیحہ کو اہل مدینہ کے عمل سے رد کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اگر ان کی نظر میں یہ عمل اس قدر اہم ہوتا تو وہ ہارون الرشید کی مؤطا مالک کے متعلق پیشکش فوراً منظور فرما لیتے۔
’’إنه شاور مالكا في أن يعلق الموطأ في الكعبة، و يحمل الناس علي ما فيه، فقال: لا تفعل، فإن أصحاب رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم اختلفوا في الفروع، و تفرقوا في البلدان، وكل سنة مضت، قال: وفقك اللّٰه يا أبا عبداللّٰه ‘‘ (حجة اللّٰه : 1/116، إعلام الموقعين: 2/296، مفتاح السعادة تاشكبري زاده 962ھ: 2/87)
’’خلیفہ ہارون نے امام مالک رحمہ اللہ سے مشورہ کیا کہ موطا کو ملک کا قانون قرار دے کر کعبہ میں لٹکا دیا جائے، تاکہ لوگ اس کی اتباع پر مجبور ہوں۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: صحابہ رضی اللہ عنہم کا فروع میں اختلاف تھا اور وہ مختلف ممالک میں پھیل گئے۔ جو کچھ ان سے منقول ہے سب سنت ہے۔ ہارون نے معاملہ سمجھ کر فرمایا: اللہ تمہیں خیر کی توفیق دے۔‘‘
امام مالک رحمہ اللہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل کو سنت سمجھتے ہیں۔ علم مدینہ میں ہو یا کسی دوسرے شہر میں، وہ اہل مدینہ کے عمل کو سنت کی بنیاد نہیں سمجھتے۔ موطا میں عملِ اہل مدینہ کا ذکر ترجیح اور تائید کے لیے ہے، اصل دلیل وہاں بھی سنت ہی ہے، جس کا ثبوت اسی طریق سے ہو گا، جو محدثین میں متعارف ہے۔ مولانا نے جس انداز سے اہل مدینہ کے عمل کا ذکر فرمایا ہے متاخرین موالک یا مولانا ایسے وکلاء جو مقام چاہیں اسے عنایت فرمائیں، امام مالک رحمہ اللہ پر اس کی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی۔ امام قطعاً اس کے حق میں نہیں کہ اہلِ مدینہ کے عمل سے سنتِ صحیحہ کو رد کیا جائے۔ یہ ایسی وکالت ہے جسے موکل پسند نہیں کرتا۔
(11) بقول امام ابن حزم رحمہ اللہ تین سو کے قریب اہل علم مدینہ سے کوفہ اور ان اطراف میں آباد ہو گئے اور اسی کے پس و پیش شام میں، اور ان کی یہ ہجرت محض دینی اور تبلیغی ضرورتوں کے پیش نظر تھی۔ اس ایثار کی یہ کتنی سخت سزا ہو گی کہ ان کا عمل نہ حجت ہے نہ سنت کے لیے اساس، اور بعض دوسرے حضرات جو دینی یا دنیوی ضرورتوں کے ماتحت مدینہ میں آباد ہو گئے، اُن کے اعمال سنت نبوی کے لیے کسوٹی قرار پائے۔ اگر وطنی عصبیت کا دین میں یہ مقام ہو تو علم و دانش کی کیا قدر و قیمت رہ گئی؟
|