Maktaba Wahhabi

290 - 676
فما حب الديار شققن قلبي ولكن حب من سكن الديارا [1] (12) اگر انسانی اعمال کو محض شرفِ وطنیت کی بنا پر احادیثِ صحیحہ اور اخبارِ آحاد پر بے اعتمادی کا ذریعہ بنایا جائے تو انکارِ حدیث کے لیے ایک خطرناک باب کھل جائے گا۔ ﴿فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ﴾ (الحج: 46) (13) اس سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ غیر مدنی صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس بھی علوم نبویہ کے ذخائر موجود تھے اور ان میں بعض ایسے بھی تھے جو اہل مدینہ کے پاس نہیں تھے۔ اس صورت میں اگر حدیث پر عمل کیا جائے تو اہل مدینہ کے عمل کی کیا حیثیت رہی؟ اور اگر اہل مدینہ کے عمل کو ترجیح دی جائے تو منکرینِ سنت نے آخر کیا جرم کیا؟ اس اصول سے حجیتِ حدیث کے مسلک کو مدد ملی یا انکارِ حدیث کی تائید ہوئی؟ اس کا فیصلہ مولانا ہی فرما سکتے ہیں ۔۔! (14) امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں چند مقامات پر اہل مدینہ کے عمل کا ذکر فرمایا ہے۔ ان کا اپنا انداز ترجیح کی حد تک ہے، الزام و حجت نہیں، بلکہ بعض مقامات پر تو یہ تذکرہ صرف اظہارِ واقعہ کے طور پر آیا ہے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ موطا کی سرکاری حیثیت کے متعلق ہارون الرشید کی تجویز اور امام مالک رحمہ اللہ کے انکار کے بعد فرماتے ہیں: ’’و هٰذا يدل علي أن عمل أهل المدينة ليس عنده حجة لازمة لجميع الأمة، وإنما هو اختيار منه لما رأي عليه العمل، ولم يقل قط في موطئه ولا غيره: لا يجوز العمل بغيره، بل يخبر إخبارا مجرداً أن هٰذا عمل أهل بلده، فإنه رضي اللّٰه عنه و جزاه عن الإسلام خيرا، ادعي إجماع أهل المدينة في نيف و أربعين مسألة‘‘ (إعلام: 2/297 منيريه) ’’اسی سے ظاہر ہے کہ اہلِ مدینہ کا عمل حجت نہیں، نہ امت پر ہی اسے قبول کرنا ضروری ہے، بلکہ مطلب صرف ایک واقعہ کا اظہار ہے۔ اہلِ مدینہ کے اجماع کا ذکر امام نے قریباً چالیس مواقع پر فرمایا ہے۔‘‘
Flag Counter