نسبتان: نسبة إلى المتكلم وقصده وإرادته، ونسبة إلى السامع وإفهام المتكلم إياه مضمونه. فإذا أخبر المتكلم بخبر مطابق للواقع، وقصد إفهام المخاطب إياه، صدق بالنسبتين؛ فإن المتكلم إن قصد الواقع، وقصد إفهام المخاطب، فهو صدق من الجهتين. وإن قصد خلاف الواقع، وقصد مع ذلك إفهام المخاطب خلاف ما قصد، بل معنى ثالثًا لا هو الواقع، ولا هو المراد، فهو كذب من الجهتين بالنسبتين معًا. وإن قصد معنى مطابقًا صحيحًا، وقصد مع ذلك التعمية على المخاطب، وإفهام خلاف مما قصده، فهو صدق بالنسبة إلى قصده، كذب بالنسبة إلى إفهامه. ومن هذا الباب التورية، والمعاريض؛ وبهذا أطلق عليها إبراهيم الخليل عليه السلام اسم الكذب، مع أنه الصادق في خبره، ولم يخبر إلا صدقًا، فتأمل ۔۔۔ الخ‘‘ (مفتاح دار السعادة: 2/39)
’’امام کا مطلب یہ ہے کہ شک اور جھوٹ کی تشخیص میں نفس الامر اور متکلم کے قصد اور ارادہ کو بھی دخل ہے۔ اس لحاظ سے اس کی تین صورتیں ہوں گی۔ متکلم صحیح اور واقعہ کے مطابق کہے اور مخاطب کو وہی سمجھانا چاہے جو فی الحقیقت ہے۔ یہ دونوں لحاظ (واقعہ اور ارادہ) سے سچ ہے اور اگر متکلم خلافِ واقعہ کہے اور مخاطب کو اپنے مقصد سے آگاہ نہ کرنا چاہے، بلکہ ایک تیسری صورت پیدا کر دے جو نہ صحیح ہو نہ ہی متکلم کا مطلب اور مراد ہو، یہ دونوں لحاظ سے جھوٹ ہو گا، لیکن اگر متکلم صحیح اور نفس الامر کے مطابق گفتگو کرے، لیکن مخاطب کو اندھیرے میں رکھنا چاہے اور اپنے مقصد کو اس پر ظاہر نہ ہونے دے، اسے تعریض اور توریہ کہا جاتا ہے۔ یہ متکلم کے لحاظ سے صدق ہے اور تفہیم کے لحاظ سے کذب ہے۔ اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے کذب سے تعبیر کیا۔ درآں حالیکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کچھ فرمایا وہ حقیقت میں صحیح تھا۔ شناعتِ عامہ سے بچنے کے لیے یہی مناسب طریق تھا۔‘‘
نامناسب نہ ہو گا، یہاں اگر حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے استاد شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی بھی ’’صدق و کذبِ خبر‘‘ سے متعلق نفیس تحقیق پیش کر دی جائے۔
|