’’الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح‘‘ (4/288) میں فرماتے ہیں:
’’والخبر تارة يكون مطابقا لمخبره كالصدق المعلوم أنه صدق، و تارة لا يكون مطابقا لمخبره كالكذب المعلوم أنه كذب، وقد تكون المطابقة في عناية المتكلم، وقد يكون في إفهام المخاطب إذا كان اللفظ مطابقا لما عناه المتكلم، ولم يطابق إفهام المخاطب، فهٰذا أيضا قد يسمي كذبا، وقد لا يسمي، ومنه المعاريض لكن يباح للحاجة‘‘ ملخصاً
ر۔ بعض اہلِ علم نے دوسری راہ بھی اختیار فرمائی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ کذب ہر حال میں حرام نہیں۔ بسا اوقات ضرورتاً شارع نے اس کی اجازت دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ)) [1](ترمذي)
احادیث میں بعض مصالح کا صراحتاً بھی ذکر آیا ہے۔ ابنِ حزم کا رجحان ’’الفصل‘‘ میں اسی طرف ہے۔[2]نئے لوگوں میں سے حسن احمد الخطیب نے ’’فقہ الاسلام‘‘ میں اس مسلک کا ذکر فرمایا ہے:
’’ومن ذلك إباحتهم الكذب إذا ترتب علي الصدق مفسدة عظيمة، وقد فصل الحموي في الأشباه الكلام في ذلك فقال ما خلاصتهٗ: إن الكذب يجوز في ثلاثة مواضع: في الإصلاح بين الناس، وفي الحرب، وعلي الزوجة لإصلاحها ۔۔۔ الخ، و يراد بذلك استعمال المعاريض لا الكذب الصريح، ونقل أن الكذب يباح لإحياء حق ۔۔۔ الخ‘‘ (ص: 239)
کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے مگر زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں جب انسان پوری صداقت کا اظہار نہیں کر سکتا۔ اگر وہ اس کے اظہار پر اصرار کرے تو اس کی راہ میں مزید مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں جن میں دیانت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جس کا قائم رکھنا ضروری ہے۔ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے تو واقعی اس رخصت سے استفادہ معصیت ہے، لیکن دینی اور ملی ضرورتوں کے لیے یہ گنجائش
|