Maktaba Wahhabi

99 - 676
أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَفكذلك أهل الدنيا إنما يتصرفون بناءاً عليٰ حسن الظنون، وإنما اعتمد عليها، لأن الغالب صدقها عند قيام أسبابها، فإن التجار يسافرون عليٰ ظن أنهم يستعملون بما به يرتفقون، والأكّارون يحرثون و يزرعون بناءاً عليٰ أنهم مستغلون، والجمالون، والبغالون يتصدرون للكراء لعلهم يستأجرون، والملوك يجندون الأجناد، و يحصنون البلاد بناءاً عليٰ أنهم بذلك ينتصرون، وكذلك يأخذ الأجناد الحذر والأسلحة عليٰ ظن أنهم يغلبون، ويسلمون، والشفعاء يشفعون عليٰ ظن أنهم يشفعون، والعلماء يشتغلون بالعلوم عليٰ ظن أنهم ينجحون، ويتميزون، وكذلك الناظرون في الأدلة والمجتهدون في تعرف الأحكام يعتمدون في الأكثر عليٰ ظن أنهم يظفرون بما يطلبون، والمرضيٰ يتداوون لعلهم يشفعون ويبردون، و معظم هذه الظنون صادق موافق غير مخالف ولا كاذب، فلا يجوز تعطيل هذه المصالح الغالبة الوقوع خوفا من ندور و كذب الظنون، ولا يفعل ذلك إلا الجاهلون“ (قواعد الأحكام في مصالح الأنام، ص: 10) ’’یہ دین اور دنیا کی برکات کا حصول اور ان کے مفاسد سے بچنے کے تمام ذرائع ظنی ہیں۔ دونوں جہان کے مصالح کی تحصیل اور مفاسد میں بچنے میں بظاہر اعتماد ظن پر ہے۔ دونوں جہان میں کچھ ایسے مصالح ہیں، اگر وہ ناپید ہو جائیں تو ان کا معاملہ بگڑ کر رہ جائے گا اور کچھ خرابیاں ہیں، اگر وہ موجود رہیں تو دنیا میں تباہی آ جائے گی۔ ان مصالح کی تحصیل کے عمومی ذرائع ظنی ہیں، قطعی نہیں۔ آخرت کے لیے جو عمل کیے جاتے ہیں ان میں ضروری نہیں کہ انجام صحیح ہو۔ یہ تمام اعمال حسنِ ظن ہی کی بنا پر کیے جاتے ہیں اور یہ خطرہ بدستور رہتا ہے کہ شاید یہ عمل قابل قبول نہ ہوں۔ اور قرآن عزیز میں بھی اس کی شہادت موجود ہے: ﴿وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ ﴾ (المومنون: 60) ’’وہ لوگ خرچ کرتے ہیں اور ان کے دل ڈرتے ہیں۔‘‘ اسی طرح دنیادار جس قدر کاروبار کرتے ہیں وہ حسن ظن ہی کی بنا پر کرتے ہیں۔ ہمیں
Flag Counter