Maktaba Wahhabi

214 - 676
(3) ذہبی نے اسے بحوالہ حاکم نقل کیا ہے۔ ’’حاکم‘‘ سے مراد علی الاطلاق مستدرک ہوتی ہے، مستدرک کے مطبوعہ نسخہ میں یہ اثر نہیں ہے۔ (4) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جس خطرہ کا اظہار فرمایا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ وہ غلط نسبت سے بچنا چاہتے ہیں۔ یہ ’’تثبت في الحديث‘‘ ہے، اسے انکار تصور کرنا تصور کی غلطی ہے۔ [1] (5) اس اثر سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تدوین و تصنیفِ حدیث کا رواج تھا۔ منکرین حدیث کے لیے اس اثر سے استدلال ’’فرّ من المطر، وقرّ تحت الميزاب‘‘[2]کا مصداق ہو جائے گا۔ (6) اور ہمیں یہ اثر قطعی مضر نہیں، کیونکہ ہم آج بھی غلط اور جھوٹی حدیثوں کو جلا دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ جب قرآن کے مشتبہ نسخے جلائے جا سکتے ہیں، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سے زیادہ کیا کیا؟ اس کی اسناد کے متعلق کسی دوسری فرصت میں ان شاء اللہ عرض کیا جائے گا۔ [3] (7) کسی غلط یا مشتبہ چیز کے جلانے سے یہ کیسے سمجھ لیا جائے کہ اصل حقیقت اور اس کا صحیح حصہ بھی قابل ترک ہے؟ (8) اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حجیت حدیث کے منکر تھے، تو پھر ایک سو بیالیس احادیث انہوں نے کیوں روایت فرمائیں؟
Flag Counter