Maktaba Wahhabi

179 - 676
طرح اعتماد ہونا چاہیے جس طرح عامۃ المسلمین کی باتوں پر۔ منکرینِ حدیث عام مسلمانوں پر تواتر کی روایات میں اعتماد کرتے ہیں لیکن پیغمبر کو یہ حق دینے میں انہیں اعتراض ہے ۔۔!! (2) ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿٥﴾﴾ (العلق: 1 تا 5) ’’اللہ کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو لوتھڑے سے بنایا۔ پڑھو تمہارا رب بہت برتر ہے۔ جس نے قلم سے سکھایا اور انسان کو وہ چیز سکھائی جسے وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘ آیت مذکورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یقیناً تعمیل فرمائی، پھر فرمایا: ﴿وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللّٰه عَلَيْكَ عَظِيمًا﴾ (النساء: 113) ’’اللہ تعالیٰ نے تم کو وہ علم سکھائے جنہیں تم نہیں جانتے تھے اور تم پر اللہ تعالیٰ کا بہت فضل ہے۔‘‘ اس آیت میں پیغمبر کے ذکر اور قراءت کا ذکر ہے اور ہر پڑھے لکھے آدمی پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وصف قرآنِ عزیز کی شہادت سے ثابت ہے، اس لیے ان کے ارشادات پر اعتماد ہونا چاہیے۔ انکارِ حدیث کے نظریہ کے پیشِ نظر پیغمبر کو اس اعتماد سے محروم کیا جاتا ہے اور یہ ظلم ہے۔ (3) ﴿ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ ﴿١﴾ مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ ﴿٢﴾ وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ ﴿٣﴾ وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴿٤﴾﴾ (القلم: 1 تا 4) ’’قلم اور ان کے لکھنے کی قسم، اللہ کے فضل سے تم مجنون نہیں۔ تمہارے لیے دائمی اجر ہے اور تم عظیم اخلاق کے مالک ہو۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہانت اور جنون ایسی مذموم عادات کی نفی کی گئی ہے اور آپ کے اعمال اور اطوارِ زندگی کو اس طرح سراہا گیا ہے اور انہیں یہ خصوصیت عطا فرمائی گئی ہے کہ آپ کا اجر کبھی ختم نہیں ہو گا۔ یہ صدقہ جاریہ ہے جو جناب کے انتقال کے بعد بھی جاری رہے گا۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کی بہت بڑی خوبی ہے کہ اس کی قبولیت اور دائمی اجر کا اعلان بذریعہ قرآن اسی دنیا
Flag Counter