میں کر دیا گیا۔ جس شخص کی پاکیزگی اور اخلاصِ عمل پر اسی دنیا میں اعتماد فرمایا گیا ہے، کیا اس کے ارشادات پر اعتماد نہ کیا جائے گا؟ اور انکارِ حدیث کی وجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بے اعتمادی نہیں تو اور کیا ہے؟
﴿وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾ کتنا بڑا اعزاز ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو عطا کیا گیا۔ جہاں تک تجربہ شاہد ہے ساری بے اعتمادیاں بدخلقی کی پیداوار ہیں، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے علی الاعلان بد اخلاقی کی مدافعت فرمائی گئی ہے۔ ؎
نگاہِ ناز جسے آشنائے راز کر دے
وہ اپنی خوبیِ قسمت پر کیوں نہ ناز کرے
اور اعتماد کی بنیادیں مضبوط کر دی گئی ہیں۔ اسی حقیقت کو ایک دوسری جگہ اور بھی واضح فرمایا گیا ہے:
﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰه لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ﴾ (آل عمران: 159)
’’آپ کے مزاج گرامی کی نرمی خدا تعالیٰ کی رحمت ہے، وگرنہ اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ پروانوں کی صفیں جو مسجد نبوی میں مقامِ نبوت کی زینت ہو رہی ہیں، سب تتر بتر ہو چکی ہوتیں۔‘‘
اخلاق کی ان بلندیوں کے بعد اور سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سرفرازی کے باوصف جس کا اعتراف قرآن عزیز نے اس صراحت سے فرمایا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و اعمال پر کوئی وجہ نہیں کہ بدگمانی کی جائے۔
(4) ﴿ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ (الجمعة: 2)
’’اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے، جس نے امیین میں سے ایک رسول برپا کیا جو ان پر اس کی آیات پڑھتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور یہ لوگ اس کی بعثت سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘
|