اس آیت پاک سے حسبِ ذیل امور ثابت ہوتے ہیں:
ا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے دور میں مبعوث فرمائے گئے جہاں تعلیم کا چرچا نہ تھا اور نہ ماحول ہی علمی تھا۔
ب۔ اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت فرماتے تھے۔
ج۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے اثر سے اس ناخواندہ اور غیر مہذب قوم کے ذہن صاف ہو گئے اور انہیں اخلاق اور روحانی اور جسمانی پاکیزگی نصیب ہوئی۔ اس جملہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم دونوں کی کامیابی کا اعلان ہے۔ پیغمبر کی قوتِ مؤثرہ کا اعلان ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اخذ و تاثرِ واقعی کی تعریف فرمائی گئی ہے۔
د۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کتابِ الٰہی کی تعلیم دیتے تھے۔ وہ اُمی بھی تھے اور معلم بھی، اور حکمت کی تعلیم بھی اس اُمی کی سیرت، صلی اللہ علیہ وسلم۔ ان اوصاف کی موجودگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی جو اہمیت ہونی چاہیے، وہ اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ قرآن جس شخصیت کی تلاوت، تزکیہ اور تعلیم کی تعریف فرما دے، اس پر شبہات کا اظہار ایمان کے منافی ہے۔ ﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ﴾
(5) ﴿ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢٨﴾ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللّٰه لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ﴿١٢٩﴾﴾ (التوبہ: 128-129)
’’تمہیں میں سے تمہارے پاس رسول آیا۔ تمہاری تکلیف اسے ناگوار ہے۔ وہ تمہاری نصیحت کے خواہشمند ہیں، اہلِ ایمان کے لیے ان کا دل بے حد نرم ہے۔ اگر لوگ تمہاری اطاعت سے بے رخی برتیں تو ان سے کہہ دو میرے لیے میرا خدا کافی ہے، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، مجھے اس پر بھروسہ ہے اور وہ عرش عظیم کا محافظ ہے۔‘‘
یہ سورہ توبہ کی آخری آیات ہیں اور سورہ توبہ شوال 9ھ میں نازل ہوئی۔ اس میں سورہ نون کے بعض مجمل گوشوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ ﴿وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾ کی وضاحت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمۃ للعالمین ہونے کا صراحتاً ذکر فرمایا ہے۔ اور یہ رحمت و رافت اس وقت ظاہر اور نمایاں ہوئی جب مکہ فتح ہو چکا اور دشمن سرنگوں ہو چکے تھے۔ اس قوت و عزت کے باوجود آپ
|