Maktaba Wahhabi

182 - 676
کے اخلاق میں نہ جذبہ انتقام ہے اور نہ شدت۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس حسنِ سلوک اور رفعتِ اخلاق کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات قابلِ قبول نہیں تو معلوم نہیں ادارہ طلوع اسلام کون سا آلہ اعتماد کے لیے ایجاد کرے گا۔۔؟ (6) ﴿وَأَنزَلَ اللّٰه عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللّٰه عَلَيْكَ عَظِيمًا﴾ (النساء: 113) ’’اللہ تعالیٰ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری اور وہ علوم سکھائے جو آپ نہیں جانتے تھے اور تم پر اللہ کا بہت بڑا فضل تھا۔‘‘ 1) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب و حکمت کی صورت میں نازل ہوئے۔ 2) اور یہ سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لاعلمی کے بعد سکھایا گیا۔ 3) یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اس میں پیغمبر کی ذات کو کوئی دخل نہیں۔ جب علم اور حکمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی تو اس کی تمام تر ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر ہو گی۔ پھر وہ حجت کیوں نہیں اور علومِ نبوی کو علومِ الٰہی سے ممتاز کیسے کیا جائے؟ یہ ایک ایسی سند ہے جس کے رواۃ پر کوئی شبہ نہیں۔ قرآنِ حکیم اس کی صحت اور صداقت کا خود شاہد ہے، اس صداقت کے قبول سے محرومی واقعی محرومی ہے۔ ﴿وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللّٰه إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ﴾ (الشوریٰ: 51) ’’اللہ تعالیٰ جب کسی سے کلام کرتا ہے تو اس کی تین صورتیں ہیں: فرشتہ رسول کی شکل میں آئے، غیبی آواز آئے، یا بذریعہ الہام اسے اطلاع دی جائے۔‘‘ ﴿وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَـٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ (الشوریٰ: 52) ’’ہم نے آپ کی طرف بھی اسی طرح اپنا امر وحی کیا۔‘‘ ﴿وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا
Flag Counter