Maktaba Wahhabi

595 - 676
’’اس واقعہ مکذوبہ کے متعلق جتنی روایتیں خصوصاً آپ کو صحاح میں ملیں گی، وہ سب کی سب ابن شہاب زہری ہی سے ملیں گی اور ابن شہاب زہری کا حال میں پوری تفصیل کے ساتھ ’’طلوع اسلام‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔ وہ منافقین و کذابین کے نادانستہ ہی سہی مگر مستقل ایجنٹ بنے ہوئے تھے۔‘‘ (طلوع اسلام: 33، اگست، ستمبر 1964ء) ان سطور میں عمادی صاحب نے کئی دعوے کیے ہیں: (1) قصہ افک کی تمام روایات زہری سے ہی مروی ہیں۔ (2) یہ سب روایات مکذوبہ ہیں۔ (3) زہری منافقین اور کذابین کے ایجنٹ ہیں۔ عمادی صاحب نے بڑی عنایت فرمائی کہ انہوں نے امام زہری رحمہ اللہ کو منافقین اور کذابین کا ایجنٹ فرمایا، اگر عمادی صاحب اپنی اردو عبارت کو سمجھ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ خود نہ جھوٹے ہیں نہ منافق، بلکہ نادانستہ طور پر ان کے پاس کذب اور نفاق کی صرف ایجنسی ہے، مگر پورے مضمون میں نفاق اور جھوٹ کے اصل مالک اور تاجر کا عمادی صاحب پتہ نہیں دے سکے۔ کوفے، بصرے اور قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ ایسے مبہم یا مجمل دعاویٰ سے کوئی الزام ثابت نہیں ہوتا۔ آپ کا دراصل ایک فوج داری کیس ہے، جو آپ کسی پارٹی کے خلاف علم و دیانت کی عدالت میں پیش کر رہے ہیں، مگر اصل مدعی علیہ کا پتہ نہیں دیتے، اس لیے آپ کا یہ مضمون بالکل بے کار اور بے سود ہے۔ زہری رحمہ اللہ تو بچارے دانستہ یا نادانستہ ایجنٹ ٹھہرے، آپ کے ذمہ بحیثیت مدعی یہ فرض ہے کہ اصل وضّاع اور جھوٹے کا صاف صاف نام لیں۔ ایجنٹ بے چارہ جب تک اسے حقیقت حال کا علم نہ ہو، مجرم نہیں۔ علم بھی ہو جائے، تو ترتیب کے لحاظ سے مدعی علیہ نمبر (2) ہو گا اور آپ پاکبازوں پر تہمت لگانے کے فوجداری جرم میں اول مجرم ہیں! رمي المحسنيناگر جرم ہے، تو آپ 80 کوڑوں کے مستحق ہیں۔ تہمت تراشی محسن پر ہو یا محصن پر جرم میں کوئی فرق نہیں۔ اب رہا پہلا دعویٰ کہ یہ حدیث صرف زہری سے مروی ہے۔ میں اس کے تقریباً 34 طرق مختلف دفاتر سنت سے پیش کر رہا ہوں۔ ان میں سے اکثر طرق صحیح بخاری ہی سے نقل ہیں۔
Flag Counter