Maktaba Wahhabi

512 - 676
میری دانست میں ارسال ایک اضافی عیب ہے۔ جب تک مرسل کی نیت کا علم نہ ہو، اس کی ذات پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے آخر مضمون میں عمادی صاحب نے جس قدر اجتہادات فرمائے ہیں اور زہری اور ائمہ حدیث کی شان میں گستاخی کی ہے، وہ غلط ہے اور اصول حدیث سے بے خبری پر مبنی ہے۔ جب تک ارسال میں شبہات نہیں پیدا ہوئے، ائمہ حدیث اسے قبول فرماتے رہے: ’’قال ابن جرير: أجمع التابعون بأسرهم علي قبول المرسل، ولم يأت عنهم إنكاره، ولا عن أحد من الأئمة بعدهم إلي رأس المائتين‘‘[1](تدريب الراوي، ص: 47) ’’مرسل کے قبول پر تابعین کا اجماع ہے، دوسری صدی کے اوائل تک کسی نے اس کا انکار نہیں کیا۔‘‘ ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أما المراسيل فقد كان أكثر العلماء يحتجون بها فيما مضي مثل سفيان الثوري و مالك والأوزاعي حتي جاء الشافعي رحمه اللّٰه فتكلم في ذلك، و تابعه عليه أحمد وغيره‘‘ (قواعد التحديث، ص: 115) ’’اکثر علماء مرسل کو حجت سمجھتے تھے، جیسے سفیان ثوری، مالک اور اوزاعی، یہاں تک کہ امام شافعی نے اس میں گفتگو کی اور امام احمد نے ان کی موافقت کی۔‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ سے پہلے جمہور اہل علم مرسل کو حجت سمجھتے رہے، سب سے پہلے اس کے متعلق تنقید امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمائی۔ [2] اس دور میں بعض ایسے وجوہ پیدا ہو گئے تھے، جن کی وجہ سے مرسل کی حجیت پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تابعی، صحابی کا نام حذف کر کے ارسال
Flag Counter