کہ یہ باتیں میں نے حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ سے نہیں سنیں، بلکہ ان کے بعض تلامذہ ہی سے سنی ہیں۔ اس قسم کا ارسال بالکل عادتاً ہے۔
بعض ثقات ائمہ حدیث سے جو ارسال منقول ہے، وہ اسی نوعیت کا تھا، مثلاً سعید بن مسیب، ابراہیم نخعی، سالم بن عبداللہ، ابو سلمہ بن عبدالرحمان، قاسم بن محمد رحمۃ اللہ علیہم، یہ لوگ ارسال کسی بری نیت یا استاد کے نام کو چھپانے کے لیے نہیں کرتے تھے۔ اخفاء کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے، جب اسناد میں کوئی ضعف یا عیب ہو۔ کبار تابعین کے اساتذہ عموماً صحابہ ہی ہوتے ہیں، انہیں بدنیتی سے چھپانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس لیے ثقات ائمہ میں یہ عمل یا عادتاً ہو گا یا سہو و نسیان سے۔ اس سے یہ فیصلہ کہ
’’غرض بالقصد جب ارسال کیا جائے، تو یہ بھی اسنادی تدلیس کی ایک قسم ہے اور یقیناً یہ بھی ایک طرح کا کذب و دجل ہے۔ اس سے چشم پوشی کھلی ہوئی مداہنت فی الدین ہے۔‘‘ (طلوع إسلام، شمارہ: 9، ص: 76)
یقیناً یا جہل اور لاعلمی ہے یا بدنیتی۔ قاتل اللّٰه قائل ذلك و معتقداه!
اصول حدیث سے فی الجملہ ممارست اور معتاد امور پر نظر رکھنے والا اگر دیانت دار ہے، تو یقیناً ایسی جہالت آمیز جسارت نہیں کر سکتا۔ معلوم نہیں حضرات منکرین حدیث کے زبان و قلم میں یہ جسارت کیوں ہے؟ عوام میں شہرت کے لیے شاید یہ آسان راہ ہے!!
میں نے اس گروہ کے اکثر بزرگوں کو دیکھا ہے کہ جتنا بڑا جہل ہو، اسے اتنی ہی بڑی جرأت سے کہنا شروع کر دیتے ہیں، تاکہ عوام اسے صحیح تصور کرنے لگیں۔ ارسال کو محققین ائمہ حدیث نے کبھی تدلیس سے تعبیر نہیں فرمایا، لیکن ہمارے دوست عمادی صاحب ہیں کہ جو اس جھوٹ سے پرہیز کرے، اسے مداہن فی الدین فرماتے ہیں۔ زبان کی یہ درازی افسوسناک ہے!
صحابہ اور کبار تابعین اور معاصرین ائمہ فن میں ارسال ایک مسامحت ہے، جسے وہ بعض اوقات عادتاً کر گزرتے ہیں، ان کی نیت خراب نہیں ہوتی، البتہ بعد میں آنے والوں کو اس میں ضرور دقت ہوتی ہے اور اسی دقت کی وجہ سے اسے ناپسند نہیں کیا گیا۔ معاصر تو اسے جانتا ہے، مگر بعد میں آنے والے لوگ اس غیر مذکور آدمی کے متعلق رائے قائم کرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔ اس کے ضعف و ثقاہت کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے۔
|