Maktaba Wahhabi

510 - 676
رفقاء اس قدر پاکیزہ تھے کہ کسی کو کسی پر بدگمانی نہ تھی۔ اگر کسی وقت شبہ ہوا، تو ادنی وضاحت سے دور ہو گیا۔ کبھی معمولی سی تاکید سے معترض کی طبیعت صاف ہو گئی۔ یہ سب ماحول اور گردوپیش کی برکت تھی۔ تابعین کا ابتدائی دور بھی اس نوعیت کا تھا۔ عموماً کبار تابعین صحابہ سے نقل فرماتے اور صحابہ کا صدق و ثقاہت از قبیل مسلّمات تھے، اس لیے نہ سند کی ضرورت تھی، نہ اتصال اور انفصال کا شبہ۔ انقطاع اور اعضال دونوں کے لیے یہاں گنجائش نہ تھی۔ صغار تابعین کے زمانہ میں بدعات کا شیوع ہوا۔ ان کی حمایت کے لیے حدیث سازی کا مشغلہ بھی بعض اوقات اختیار کیا گیا، جسے اہل علم کی دور بین نگاہوں نے تاک لیا اور اسی وقت سند کی ضرورت پیش کی گئی۔ ’’عن ابن سيرين أنه قال: كانوا لا يسألون عن الإسناد فلما وقعت الفتنة قيل: سموا لنا رجالكم، فينظر إلي أهل السنة فيؤخذ عنهم، وإلي أهل البدعة فلا يؤخذ عنهم‘‘[1](مقدمه صحيح مسلم، أيضا: إرشاد الفحول، ص: 62) ’’ابن سیرین فرماتے ہیں: ابتداء میں سند کی بابت کوئی نہیں پوچھتا تھا۔ جب فتنہ واقع ہو گیا، تو رجال کی تحقیق شروع ہوئی۔ اہل سنت کی روایات قبول کی جاتیں اور اہل بدعت کی روایات ترک کر دی جاتیں۔‘‘ سچائی کے عام رواج کی وجہ سے سند کی بابت پڑتال نہیں ہوتی تھی۔ اس کا یہ معنی نہ سمجھا جائے کہ اس وقت سند فی الوقوع ناپید تھی، بلکہ اس کی ضرورت نہ تھی، لوفور سجية الصدق [2] ایسا کہنے اور سننے والے دونوں اصل سند کو جانتے تھے۔ آج کل بھی معاصر ایک دوسرے کے اساتذہ اور تلامذہ کو سمجھتے ہیں، ایک دوسرے کے تعلیمی حالات، معاصرت، لقاء، سماع وغیرہ کا رفقاء کو عموماً علم ہوتا ہے۔ مثلاً میرے سب رفقاء جانتے ہیں کہ میں نے حدیث کا سماع حضرت الشیخ الامام حافظ عبدالمنان وزیر آبادی رحمہ اللہ سے کیا۔ مجھے میاں صاحب رحمہ اللہ سے شرف تلمذ نہیں۔ اس کے باوجود میاں صاحب رحمہ اللہ کی بیسیوں باتیں بلا سند مجلس میں ذکر ہو جاتی ہیں۔ رفقاء یہ بھی جانتے ہیں
Flag Counter