Maktaba Wahhabi

541 - 676
ابن حزم رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ائمہ حدیث کی رائے یہ ہے کہ تفسیر و توضیح کے علاوہ سنت اور صاحبِ سنت کے مقام میں ایک استقلال موجود ہے۔ [1] منزل قرآن کے ساتھ پیغمبر ایک چلتا پھرتا قرآن ہے، جو خدا کی زبان سے بولتا ہے۔ ﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴾ (النجم: 3، 4) ﴿ هَوَىٰ﴾ کی حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد یہ مسئلہ اتنا صاف ہے کہ اس پر مزید بحث کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اطاعتِ رسول پر قرآن میں بار بار زور دیا گیا ہے۔ خدا کی اطاعت کے ساتھ اسے مکرر بالاستقلال ذکر فرمایا گیا، یہاں کسی نزاع کا ذکر ہی نہیں کیا، تاکہ کسی دوسری طرف رد کی ضرورت محسوس ہو۔ جہاں تک مقام نبوت کا ذکر ہے، یہاں کوئی تذبذب قبول نہیں کیا جا سکتا، ظن و یقین کے متعلق سند و روایت سے اور مقام نبوت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ مولانا تمنا نے کمزور اور دو دلی سے ضرورتِ حدیث کے لیے جس تھوڑی بہت آمادگی کا اظہار فرمایا ہے، وہ بھی مقام نبوت ہی کی وجہ سے ہے۔ اس لیے اگر مقام نبوت میں شک نہ ہو، تو حدیث اور سنت کی حجیت کی بحث تو ختم ہو جاتی ہے، اسی وجہ سے ائمہ اسلام نے بالاتفاق حدیث کی اس مستقل حیثیت کو تسلیم فرمایا ہے: ’’اعلم أنه قد اتفق من يعتد به من أهل العلم علي أن السنة المطهرة مستقلة بتشريع الأحكام، و أنها كالقرآن في تحليل الحلال و تحريم الحرام ۔۔ الخ‘‘ (إرشاد الفحول، ص: 31) ’’اہل علم متفق ہیں کہ تشریعِ احکام اور حلال و حرام کی تعیین میں سنت قرآن کی طرح ہے۔‘‘ اور پھر (صفحہ: 32) فرماتے ہیں: ’’والحاصل أن ثبوت حجية السنة المطهرة، و استقلالها بتشريع الأحكام ضرورة دينية، لا يخالف في ذلك إلا من لا حظ له في دين الإسلام‘‘ [2] ’’احکام کی تشریع اور تعیین میں سنت مستقل حجت ہے۔ یہ ایک دینی ضرورت ہے، اس کی
Flag Counter