[1]اور مولانا اصلاحی کے طریقہ تنقید و اصول تنقید کی صحت کو ثابت فرماتے، مگر مولانا نے میرے دلائل کے حصہ کو بالکل کاٹ کر الگ کر دیا۔ اگر ایسا غلطی سے ہوا ہے اور مولانا کتاب کا آخری حصہ نہیں پڑھ سکے، تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دے۔ اگر دانستہ ایسا کیا گیا ہے، تو یہ علمی خیانت ہے۔ ’’مُثله‘‘ کرنے کا جو الزام مجھ پر لگایا گیا تھا، اس کا ارتکاب خود فرمایا:
کیا کسی سے گلہ کرے کوئی
مولانا نے یہی نہیں کیا، بلکہ بحث کا رخ ہی دوسری طرف پھیر دیا اور یہ باور کرانے کی ناکام کوشش کی کہ گویا محدثین کے طریقِ تنقید سے بھی چور دروازے کھل سکتے ہیں اور استحقار اور استخفاف کا الزام دیا جا سکتا ہے۔ [2]1 آخر میں فرمایا:
’’نقدِ احادیث تو مسلمانوں کا بہت بڑا علمی اور دینی کارنامہ ہے، اس کو چھپا دینا خود فن حدیث کے ساتھ نا انصافی ہے۔‘‘ [3]2
مولانا ماہر القادری کا یہ فرمانا کہ
’’فن حدیث پر محدثانہ طریق تنقید کو اہل حدیث ہی چھپانا چاہتے ہیں۔‘‘ [4]3
دیانت اور شرافت سے کتنی بڑی بے انصافی ہے؟ إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ! ہمیں تو شکایت ہی یہ ہے کہ آج کل کے متنورین نئے تنقیدی نظریات سے متاثر ہو کر محدثین کے کارناموں کو نظرانداز کرنا چاہتے اور انہیں ناتمام سمجھتے ہیں اور لاعلمی کی وجہ سے چور دروازے کھولتے اور سنت میں تشکیک پیدا کرتے ہیں۔ افسوس ہے مولانا اصلاحی کی ’’مزعومہ سنت‘‘ اور مولانا مودودی اور مولانا شبلی مرحوم کی ’’مخترعہ درایت‘‘ سے شکوک کے سوا حدیث کی کوئی خدمت ممکن نہیں ہو سکی۔ یہ بحث کے نئے زاویے ملت کے لیے بھی مصیبت ہیں اور ان حضرات کے لیے بھی!
|