Maktaba Wahhabi

113 - 676
اب آج کا عدالتی نظام آج کے عیارانہ اذہان اور فنِ وکالت کی موشگافیوں کی مدد سے اسے سوچتا ہے تو وہ یہ کہنے کی جرأت کرتا ہے کہ ملکہ کو خواہ مخواہ بدنام کیا گیا۔ عورت ذات اور پھر ملکہ، اور آج سے کئی سو سال پہلے کا ذہن! کیسے عقل باور کر سکتی ہے، ملکہ اپنے ادنیٰ غلام کے گریبان میں ہاتھ ڈال دے اور اس کے پیچھے بھاگنا شروع کر دے؟ عقل اسے قبول نہیں کر سکتی۔ غلام ہزار خوبصورت سہی، کیا ملکہ اپنے مقام کو نہیں سمجھتی تھی؟ وہ اس کے پیچھے کیسے بھاگ کھڑی ہوئی؟ یہ پوری داستان اصول درایت کے خلاف ہے۔ بےشک قرآن نے اس روایت کی توثیق فرما دی ہے لیکن درایت کو کیسے نظر انداز کیا جائے؟ ممکن ہے غلام کی قمیص اس حادثے سے پہلے ہی اتفاقاً پھٹ گئی ہو۔ بچوں کی بھاگ دوڑ میں غلام کا کُرتا پہلے ہی کہیں شگاف آلود ہو گیا ہو۔ شاہد کی ہمدردیاں غلام کے ساتھ ہوں یا اتفاقاً معاملہ ہی اس نہج پر آ گیا ہو۔ اس وقت عدالت نے چونکہ اس احتمال اور امکان پر غور نہیں کیا، اس لیے یوسف علیہ السلام کی براءت مشکوک اور امرأۃ العزیز کا جرم یا مصر کی عدالت کا فیصلہ نظر ثانی کے لیے پھر قانونی عدالت میں آنا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طاقتور نوجوان پوری قوت سے بھاگ رہا ہو تو ایک عورت اس تیزی سے دوڑے کہ نوجوان کا دامن چاک کر دے؟ ممکن نہیں ہے کہ عورت اس تیزی سے دوڑ سکے۔ عورت کے بدن کی ساخت اور جسم کے مختلف اجزاء کی ہئیت کذائی کا تقاضا ہے کہ وہ جوان مرد کو نہ پکڑ سکتی ہے اور نہ اس کے پیچھے اس طرح دوڑ سکتی ہے۔ مصر کی عدالت کا فیصلہ محض جذباتی ہے۔ اس کی اپیل ہونی چاہیے۔ ممکن ہے ملکہ کا الزام غلام پر درست ہو اور درایت کی رو سے ملکہ مصر بری نکلے۔ اس قسم کی اور بھی کئی تنقیحات امکان اور احتمال کی مشین کے ذریعے سے فن کار اور ماہر وکیل پیدا کر سکتے ہیں اور درایت کے عاشق درایت کی ریتی سے واقعات کا برادہ کر کے دے سکتے ہیں۔ اس ساری وکالت پروری کا جواب ایک سادہ دل اور دیانتدار انسان تو یہی دے گا کہ جس ماحول میں جرم ہوا، اس ماحول کی عدالت نے مناسب تحقیق کے بعد جو فیصلہ کیا، وہی درست ہے۔ میں نے حضرت یوسف علیہ السلام کے شاہد کی ازروئے حدیث پوزیشن کو عمداً نظرانداز کیا ہے، اس لیے کہ ہمارے فریق مخالف اسے مانتے ہی نہیں اور یہاں تو وہ بظاہر قرآن کے خلاف ہے۔ قرآن
Flag Counter