Maktaba Wahhabi

112 - 676
صدی کے آخر تک ختم ہو گیا۔ اب پورے ہزار سال بعد ان کے حوش و حواس نے انگڑائی لی کہ محدثین تو سازش کر گئے اور فنِ حدیث سازشیوں کی نظر ہو گیا۔ اب سوچیے کہ اتنی دیر کے بعد ایسے فوجداری مقدمات کی تفتیش ممکن ہے؟ یا کوئی دانشمند اس موضوع پر سوچنے کی بھی کوشش کر سکتا ہے؟ اور پھر یہ تفتیش کسی نتیجہ پر بھی پہنچ سکتی ہے؟ مثلاً قرآن عزیز نے آج سے کئی ہزار سال پیشتر کا ایک کیس ذکر فرمایا ہے۔ ملکہ مصر نے محبت کی سرشاریوں میں اپنے غلام کو بلا کر محل کے سارے دروازے بند کر دیے اور غلام سے کھلے طور پر کہا کہ جنسی محبت کی آخری حدوں تک کامیاب رسائی کے لیے میرا دل بے قرار ہے اور اس سے انکار و گریز کے متعلق کوئی عذر نہیں سنا جا سکتا۔ پاکباز غلام نے ملکہ کا ہاتھ جھٹک دیا اور بڑی جرأت سے کہا کہ دروازوں کی بندش کا کوئی سوال نہیں۔ میرے رب کی دوربیں نگاہ اس محل کے گوشہ گوشہ پر محیط اور ذرے ذرے میں ساری ہے۔ اس کے ساتھ ہی اپنے آقا کی ناشکری یا نمک حرامی میرے لیے کیسے ممکن ہے؟ غلام دروازے کی طرف بھاگ نکلا، ملکہ اس کے تعاقب میں دوڑی۔ اس دوڑ میں غلام کی قمیص پچھلی طرف سے پھٹ گئی۔ جب مکان کے صحن میں پہنچے تو ملکہ کے خاوند اور غلام کے آقا وہاں بذاتِ خود موجود تھے۔ ملکہ نے غلام پر الزام لگایا کہ چھیڑ کی ابتداء غلام نے کی ہے، اسے جیل کی ہوا چکھنا چاہیے۔ عزیزِ مصر حقیقتِ حال دریافت ہی کر رہے تھے کہ فیصلے کی ایک صورت سامنے آ گئی۔ حاضرین میں سے کسی نے کہا: مسئلہ چنداں مشکل نہیں۔ اگر ابتداءً شرارت غلام کی ہے تو اس کا رخ ملکہ کی طرف ہونا ضروری ہے۔ غلام کے کپڑے اگر سامنے کی طرف سے پٹھے ہیں تو ملکہ کی بات درست ہے، سزا غلام کو ملنی چاہیے۔ اگر غلام کے کپڑے پُشت کی طرف سے پھٹے ہیں تو معاملہ ظاہر ہے کہ بھاگتے ہوئے غلام کا تعاقب ملکہ نے کیا ہے، اس لیے غلام سچا ہے، ملکہ کی اس غلط جرأت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ غلام میں کوئی غلطی نہیں۔ جب معاملہ کی تحقیق کی گئی تو غلام سچا نکلا، کیونکہ غلام کی قمیص پُشت کی طرف سے پھٹی ہوئی تھی۔ یہ جھگڑا آج سے کئی سو سال پہلے پیدا ہوا اور اس وقت کی سوسائٹی کے عدالتی معیار کے مطابق معاملہ طے ہو گیا اور حضرت یوسف باعزت بری ہو گئے۔
Flag Counter