پھر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس لیے بھی صحیح ہے کہ اس میں ہار کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ملکیت ظاہر کیا گیا ہے، حالانکہ ’’كتاب التيمم‘‘ کی تیسری حدیث میں اس طرح مروی ہے:
’’حَدَثْنَا زَكريا بْن يَحييٰ قَالَ حَدَثْنَا عَبْدُ اللّٰه بن نمير قَالَ حَدَثْنَا هشَّام بن عرْوَة عَنْ أَبِيْه عَنْ عَائِشَة أنَّهَا اسْتَعَارَتْ مِن أسْمَاءَ قِلَادَةً فَهَلَكَتْ، فَبَعَثَ رَسولُ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عليه وسلَّمَ رَجُلًا فَوَجَدَهَا، فأدْرَكَتْهُمُ الصَّلَاةُ وليسَ معهُمْ مَاءٌ‘‘ (1/219)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی بہن اسماء رضی اللہ عنہا کا ہار مستعار لیا اور وہ اسی جگہ گم ہوا جہاں پانی نہیں تھا۔
ہار مستعار لینے کے باوجود حدیث تیمّم صحیح رہ سکتی ہے، تو امید ہے کہ عمادی صاحب امام زہری کو بھی معاف فرما دیں گے۔
ایں گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند [1]
نیز عمادی صاحب ہشام بن عروہ کی روایت کو بھی تسلیم فرما لیں، تو ایک اور مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔ اس کے دو راوی زکریا بن یحییٰ اور عبداللہ بن نمیر کوفی ہیں، غالباً کوفی ہوں گے یا شامی۔ [2] اس سے اتنا تو ثابت ہو گا اگر عمادی صاحب کو معلوم نہ ہو، تو کوفی بھی سچ بول سکتے ہیں اور ان کی حدیث صحیح ہو سکتی ہے۔
نیز فرمایا ہے کہ مستعار ہار کی روایات صحیح سے خارج ہیں، صحاح میں نہیں۔ عمادی صاحب کو یہ تو معلوم ہو گا کہ صحیح بخاری بھی صحاح ہی میں ہے اور یہ بخاری کی روایت ہے۔
عمادی صاحب کے مطالعہ کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ فرماتے ہیں:
’’افک والی مکذوبہ روایت جو صحیح بخاری میں ہے، اس میں تو یہ ذکر نہیں کہ وہ ہار منگنی کا تھا۔ اپنی بہن حضرت اسماء سے منگنی کا مانگ کر پہن کر آئی تھیں، یہ صحاح سے باہر کی روایت میں ہے۔‘‘
حالانکہ یہ روایت صحیح کے ’’كتاب التيمّم‘‘ میں تیسری روایت ہے۔
|