عمادی صاحب کا یہ پیرا محض تصنع اور لفاظی ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس کا جواب (4، 5) میں عرض ہو چکا ہے۔
عمادی صاحب نے جو حدیث صحیح بخاری سے خود نقل فرمائی ہے، اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ خود رات کو پڑاؤ کے بعد رات کے آخری حصہ میں آپ نے کوچ فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ہار کی وجہ سے بچھڑ گئیں، صبح کی نماز راستہ میں آئی، آغاز دوپہر ہی میں حضرت عائشہ پہنچ گئیں۔ ابن اسحاق کے الفاظ اس طرح ہیں:
’’فانطلق سريعا يطلب الناس فو اللّٰه ما أدركنا الناس، وما افتقدت حتيٰ أصبحت، و نزل الناس فلما اطمأنوا طلع الرجل يقود بي‘‘ (روض الأنف مع ابن هشام: 2/220)
’’صفوان بن معطل قافلہ کی تلاش میں بہت تیز چلا، صبح تک نہ ہم قافلہ میں پہنچے نہ میرے فقدان کا کسی کو احساس ہوا، یہاں تک کہ صبح ہو گئی، لوگ اتر کر مطمئن ہوئے ہی تھے، صفوان مجھے لے کر پہنچ گیا۔‘‘
ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجت سے واپس آئیں، تو ہار کے فقدان کا احساس ہوا۔ اسی وقت واپس گئیں، قافلہ حسب دستور چلا گیا۔ صرف نماز فجر راستہ میں آئی۔ پڑاؤ کے بغیر اگر قافلہ راستہ میں ٹھہرے، تو پورا سامان نہیں اتارا جاتا۔ اونٹ لدے کھڑے رہتے ہیں، سواریاں اتر کر نماز پڑھتی ہیں، ایسے وقت میں حسب گنجائش عورتیں نماز مردوں کے ساتھ پڑھیں یا الگ، جماعت ہو یا اپنی اپنی نماز ادا کریں، بہرحال قافلہ کی گنتی نہیں ہوتی، نہ ہی ایسے سفر میں سب اچھا کا دستور ہے۔ نماز سے فراغت کے بعد لازماً ہر ایک کو خود اپنے اونٹ کی طرف جانا چاہیے، اس لیے اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف غلس (اندھیرے) میں توجہ نہ ہو تو بالکل ممکن ہے۔ ہر وقت محمل کے ساتھ مرد چمٹے رہیں، یہ کوئی معقول طریقہ نہیں۔ قافلہ اترنے کے بعد جب سامان سنبھالا گیا، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گمشدگی کا پتہ چلا، معاً صفوان بن معطل پہنچ گئے، منافقین کو بات ہاتھ آئی، انہوں نے شور مچا دیا۔ اس میں نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی اعتراض ہے، نہ صفوان رضی اللہ عنہ پر، منافقین کو اعتراض ہو سکتا تھا سو ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دستور کے مطابق شریفانہ طور پر اپنی ذمہ داری کو پورا فرمایا۔اللّٰه م صل و سلم عليه وآله و أزواجه أجمعين
|