Maktaba Wahhabi

516 - 676
ائمہ اصول کی تعریف کے متعلق امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’إطلاق المرسل علي هذا، وإن كان اصطلاحا، ولا مشاحة فيه لكن محل الاختلاف هو المرسل باصطلاح أهل الحديث ۔۔ الخ‘‘ ’’ائمہ اصول اسے بطور اصطلاح مرسل کہتے ہیں۔ اصل محل حذف مرسل باصطلاح اہلحدیث ہے۔ جمہور کے نزدیک یہ از قسم ضعیف ہے، اس لیے حجت نہیں۔ ممکن ہے کہ محذوف راوی صحابی نہ ہو اور ضعیف ہو۔‘‘ [1] امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور جمہور معتزلہ اسے حجت سمجھتے اور قبول فرماتے ہیں۔ آمدی رحمہ اللہ نے بھی یہی مسلک پسند کیا ہے۔ بعض انتہا پسند غالی اسے مسند سے بھی بہتر سمجھتے ہیں۔ قاضی عیسیٰ بن ابان قرون مشہود لہا بالخیر کی مراسیل کو حجت سمجھتے ہیں۔ قاضی عیسیٰ بن ابان محتاط قسم کے معتزلی ہیں۔ ابن حاجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر ناقل محتاط نہ ہو، ارسال غیر ثقہ راوی سے بھی کرے، تو ایسی مرسل حجت نہ ہو گی۔ [2] امام مالک رحمہ اللہ بھی اس مسئلہ میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہم آواز ہیں: ’’و أصل مذهب مالك و جماعة من أصحابه أن مرسل الثقة يجب به الحجة، ويلزم به العمل كما يجب بالمسند سواء‘‘[3](إرشاد، ص: 61) ’’امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے رفقاء مرسل کو مسند ہی کی طرح حجت سمجھتے ہیں اور اس پر عمل ضروری سمجھتے ہیں۔‘‘ امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں قدماء سے بھی مرسل کے ضعف اور عدم حجیت کا تذکرہ فرمایا، [4] لیکن امام شافعی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث فرمائی اور ان تمام نقائص کی نشاندہی فرمائی، جو مرسل کی حجیت سے پیدا ہو سکتے تھے، [5] اس لیے عموماً امام شافعی رحمہ اللہ اس اختلاف
Flag Counter