سکولِ فکر کے داعی ہیں، اس لیے خیالات میں یکسانی قدرتی تھی۔
اس اثنا میں جماعت اسلامی کے رفقاء مولانا مودودی کے ساتھ والہانہ عقیدت مندی میں قریباً اسی مقام پر پہنچ چکے تھے، جہاں اس وقت میاں بشیر الدین اور ہمارے قادیانی دوست پہنچ چکے ہیں۔ وہ مولانا کے ارشادات کو نصوص کی طرح پیش فرماتے اور ’’امرت دھارا‘‘ کی طرح اسے ہر مرض کے لیے نسخہ شفا تصور کرتے ہیں۔ انہیں اپنے مخالفین سے شکایت ہے کہ ان حضرات نے تنقید میں اعتدال اور انصاف پسندی سے کام نہیں لیا، لیکن اپنی قیادت کی دھاندلی اور علمی لغزشوں کی تاویل میں ان حضرات نے بالکل حزبی عصبیت سے کام لیا ہے اور وہ سب کچھ کیا ہے جس کی انہیں دوسروں سے شکایت ہے۔ حال ہی میں ’’مکتبہ تہذیب ملت‘‘ لائل پور نے ’’کیا جماعت اسلامی حق پر ہے؟‘‘ کتابچہ شائع کیا۔ ’’حرفِ اول‘‘ اسی ذہنی افتاد کا مظہر ہے۔
مشکلے دارم ز دانشمند مجلس باز پرس
توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر می کنند
’’تفہیمات‘‘ میں بسلسلہ ’’حدیث میں مختلف نظریات‘‘ مولانا مودودی نے چند گروہوں کا ذکر کیا ہے۔ تیسرے گروہ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’تیسرا گروہ حیثیتِ رسالت اور حیثیت شخصی میں فرق کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری (غلام احمد پرویز اڈیٹر ’’طلوعِ اسلام‘‘) صاحب اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، اور میں ابتدا ہی میں یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ان کا مسلک حق سے بہت زیادہ قریب ہے، اگرچہ تھوڑی سی غلطی اس میں ضرور ہے، لیکن الحمدللہ کہ وہ گمراہی کی حد تک نہیں پہنچتی۔‘‘ (تفہیمات: 1/235، 236، طبع چہارم)
اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ اسلامی قیادت کے ان ارتقائی نظریات پر ائمہ سنت کی تصریحات کی روشنی میں لکھا جائے۔ اسی ضمن میں میں نے فن حدیث کی غیر معتدل تنقید کے ارتقائی ادوار کا ذکر بھی کیا ہے اور ضمناً ان مسائل کے متعلق مسلکِ اہل حدیث کی وضاحت بھی کی ہے۔ مضمون چونکہ ’’الاعتصام‘‘ کے لیے لکھا گیا تھا، اس لیے اخبار کے حجم کے لحاظ سے انتہائی اختصار کرنا پڑا۔
مولانا اصلاحی اور مولانا مودودی کا تذکرہ محض وقتی و اتفاقی ہے، اصل مقصد مقامِ سنت کی
|