اس قدر تھا کہ علم حدیث کی روایت کرتے، مگر معانی کو تالا لگا ہوا تھا۔ فقہاء نے حدیث کے معانی بیان فرمائے اور لگا ہوا تالا کھولا۔‘‘ (ص: 32 بلفظہ)
مولانا کی زبان اور استدلال میں علمی ثقاہت نہیں، جس کی ایک پڑھے لکھے آدمی سے امید ہونی چاہیے۔ یہ درست ہے کہ ’’نتائج التقليد‘‘ کی زبان اور لہجہ بھی خاصہ تلخ ہے۔ مرحوم حکیم صاحب سے انتقام لے لیتے، مگر ائمہ حدیث پر اتہام انصاف نہ تھا۔
ایک اور مولانا فرماتے ہیں:
’’اہلحدیث سے وہ حضرات مراد ہیں جو حدیث کے فہم و حفظ اور اس کے اتباع و پیروی کے جذبہ سے سرشار اور بہرہ ور ہوں۔ اہل حدیث کا مفہوم جو غیر مقلد حضرات کی طرف سے سمجھا اور سمجھایا جا رہا ہے کہ ترک تقلید ہے، سراسر غلط، سولہ آنے باطل اور سو فیصد بے بنیاد ہے۔‘‘ (طائفہ منصورہ، ص: 41)
یہی مؤلف صاحب ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
’’چونکہ غیر مقلدین حضرات کو فقہ اور اہل فقہ سے تنفر اور عناد ہے، اس لیے وہ کسی طرح طائفہ منصورہ کی حدیث کے مصداق نہیں ہو سکتے، جس میں ’’تفقه في الدين‘‘ کے الفاظ سورج کی شعاعوں کی طرح چمک رہے ہیں اور اس کا اصل اور صحیح مصداق صرف وہ حضرات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ’’تفقه في الدين‘‘ کا ملکہ عطا فرمایا ہے اور وہ ائمہ دین اور ان کے مقلدین ہیں۔‘‘ انتهي ملخصاً (طائفہ منصورہ، ص: 18)
کسی شخص کی فقہیات کو من و عن اور کلی طور پر قبول نہ کرنا دوسری بات ہے اور فقہ سے نفرت دوسری بات، شتان بينهما۔ اہلحدیث میں پہلی بات تو ہے، دوسری سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ قیاس کو حجت ماننے کے بعد فقہ سے نفرت کا کوئی مطلب نہیں۔ فقہ الحدیث میں ائمہ حدیث کے ضخیم ذخائر موجود ہیں، پھر نفرت کیسے؟ بعض مسائل پر تنقید ضرور ہوئی ہے اور یہ گناہ مقلدین فقہاء اربعہ بھی متون اور شروح میں فرماتے ہیں، اگر اس کا معنی نفرت ہے تو ؎
ایں گناہ است کہ در شہر شما نیز کنند [1]
|