مجھے مؤلف محترم کے اس سوء ظن اور مطاعن سے غرض نہیں، وہ جو چاہیں فرمائیں، کتاب کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غالباً خون کے دباؤ کے مریض ہیں، اسی لیے پوری کتاب بلا وجہ ناراضگی اور پراگندہ خیالی کا مجموعہ ہے۔
ان حوالہ جات سے مقصد یہ ہے کہ یہ حضرات تفقہ فی الدین سے صرف مروجہ فقہی جزئیات اور متعارف دفاتر فقہ سمجھتے ہیں، حالانکہ آیت کا نزول بہت پہلے ہے۔ جس تفقہ فی الدین کی تعریف قرآن اور سنت میں فرمائی گئی ہے، اس سے محدثین اور علماء اہل حدیث کو وافر حصہ ملا ہے، مگر وہ ان آراء الرجال کو دین نہیں سمجھتے، بلکہ کتاب و سنت کی روشنی میں ان سے استفادہ فرماتے ہیں اور تفقہ فی الدین کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اور مقام پر یہی مؤلف امام ترمذی کی شافعیت کے تذکرہ میں مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ سے الجھنے کی کوشش فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں:
’’امام ترمذی، امام شافعی کی مخالفت کے باوجود شافعی ہیں، اولاً اس لیے کہ اہل علم مقلد، نرے لکیر کے فقیر نہیں ہوتے۔ وہ دلائل کی صحت و سقم کو پرکھتے اور جانتے ہیں اور کمزور دلائل میں اپنے امام کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘ 1ھ (طائفہ، ص: 114)
اہل حدیث بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ یہ واقعتاً معلوم ہے کہ ان مسالک کے دلائل بسا اوقات کمزور ہوتے ہیں اور ایسے وقت میں ان کا ساتھ چھوڑ دینا کوئی برائی نہیں بلکہ خوبی ہے۔ اس صراحت کے بعد اہل حدیث پر ناراضگی بے معنی ہے۔
اس کے بعد فرماتے ہیں: ’’بایں ہمہ وہ اصولی طور پر مقلد ہی ہوتے ہیں۔‘‘ ہماری ادباً یہ رائے ہے کہ ’’بایں ہمہ یہ اصولی طور پر غیر مقلد ہیں۔‘‘ بحث لفظی سی رہ گئی۔ آپ خواہ مخواہ ’’غیر مقلد‘‘ حضرات پر ناراض ہوتے رہیں، حقیقت تو کھل گئی۔ آپ نے عملاً امام ابو یوسف، امام محمد، امام طحاوی کے متعلق اقرار فرما لیا کہ وہ اپنے امام کی فقہیات میں پورے مقلد نہ تھے۔ولا نعني بترك التقليد إلا ذلك۔
ہمارا اتنا ہی گناہ ہے کہ اشخاص کے بجائے دلائل پر انحصار کرتے ہیں۔ غرض یہ پوری کتاب تضاد اور پراگندہ خیالی کا مجموعہ ہے۔
|