ان گزارشات سے نہ مؤلف کی تردید مطلوب ہے، نہ اس کتاب کا جواب۔ ہماری گزارش صرف اس مغالطہ کا ازالہ ہے جو فقہ کے مفہوم کی تخصیص سے ائمہ حدیث کے متعلق پیدا ہوا یا پیدا کیا گیا۔
آیات اور احادیث میں جہاں فقہ کا لفظ آیا ہے، اسے اس معنی پر محمول فرمائیں جس سے وہ قرون اولیٰ میں منطبق ہو سکے، جو فقہیں اس وقت موجود ہی نہ تھیں، انہیں مراد لینا دھوکہ ہو گا۔ فروع کے استنباط کا مشغلہ ہمیشہ رہا، لیکن قرون خیر میں کوئی شخص کسی دوسرے کی فقہ کا پابند نہ تھا۔ واجب یا فرض کہنا تو بڑی بات ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فإنا نعلم بالضرورة أنه لم يكن في عصر الصحابة رجل واحد، اتخذ رجلا منهم يقلده في جميع أقواله فلم يسقط منها شيئا، و أسقط أقوال غيره فلم يأخذ منها شيئا، ونعلم بالضرورة أن هذا لم يكن في التابعين ولا تابعي التابعين، فليكذبنا المقلدون برجل واحد سلك سبيلهم الوخيمة في القرون الفضيلة علي لسان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ (إعلام: 1/222)
’’ہم قطعاً جانتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم میں ایک بھی ایسا آدمی نہیں جو ایک ہی آدمی کے فقہی اقوال کو کلی طور پر قبول کرے اور دوسرے کے اقوال سے کوئی استفادہ نہ کرے۔ ارباب تقلید ایک ہی آدمی بتا کر ہماری تکذیب فرمائیں!‘‘ (إعلام، مطبوعہ ہند)
علماءِ حق اور اہلحدیث نے ان فقہیات کے خلاف اس وقت آواز اٹھائی جب ان آراء رجال اور متعارض فقہیات کو اغلال و سلاسل کی صورت دے دی گئی اور ایک مجتہد کے ساتھ وابستگی واجب قرار دے دی گئی۔ آج بھی ان فقہیات کو اپنے مقام پر لے آئیے اور انہیں علماء کے افادات اور افکار سمجھیے، ان کے قبول کو واجب نہ فرمائیے، تو معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ سوال فقہیات سے نفرت یا ان کے رد و قبول کا نہیں، سوال صرف اس قدر ہے کہ ایک مجتہد کی تمام فقہیات کو واجب القبول کس نے بنایا؟ یا قرون خیر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کون بزرگ تھے جن کی ساری فقہیات پر یقین اور عمل واجب قرار دیا گیا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ خود ائمہ اجتہاد نے بھی اس التزام سے روکا۔ بعض خلفاء نے امام مالک رحمہ اللہ سے فرمایا کہ موطا کو پوری عباسی قلمرو میں آئین کی حیثیت دے دی جائے۔ امام نے
|