Maktaba Wahhabi

660 - 676
اس کا انکار کر دیا۔ [1] اگر اس تقلید و جمود کے لیے شرعی بنیاد ہوتی، تو امام مالک خلیفہ کی اس استدعا کو ضرور قبول فرما لیتے۔ ان مولانا صاحب کا ایک اور گرم گرم پیرا سن لیجیے اور ان حضرات کے علم اور اخلاقی رفعت کی داد دیجیے۔ فرماتے ہیں: ’’نہایت تعجب ہے اور سخت حیرت ہے کہ بالکل نو احداث جماعت اور کل کی پیداوار جب مذاہب اربعہ پر تنقید کرتی ہے، تو اس کو چوتھی صدی کے بعد کی بدعت قرار دیتی ہے۔ (ہم نہیں بلکہ ملاحظہ ہو: حجة اللّٰه (1/122) اور قوت القلوب (2/36) [2]اور اپنا رشتہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے جا ملاتی ہے اور اپنے گھر کا یہ راز اور بھید بھولے سے بھی نہیں بتاتی کہ اس کا بانی مبانی کون تھا؟ علماءِ ہند نے اس کے متعلق کیا کہا اور علماءِ حرمین نے کیا فتویٰ دیا ہے؟ پہلے یہ کس نام سے موسوم تھی اور اہلحدیث کا لقب کب سے اختیار کیا؟ تف ہے اس دیانت پر، حیرت ہے اس تعصب پر اور تاسف ہے اس پردہ پوشی پر، مگر ان کو معلوم ہونا چاہیے: ہر پیشہ گماں مبر کہ خالیست شاید کہ پلنگ خفتہ باشد میں کسی چیز کا جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ آپ جو سمجھتے ہیں سمجھیں، جو کہنا چاہتے ہیں کہیں۔ نواب صاحب اور مولانا محمد حسین مرحوم کی رائے کیوں بدلی؟ آپ کے اکابر کا اس میں کہاں تک دخل تھا؟ حرمین کے فتوؤں میں حاجی امداد اللہ، مولانا خیر الدین، مولوی رحمت اللہ مرحوم کیرانوی نے کیا کردار ادا کیا اور 1857ء کے محاربہ میں آپ کے اکابر نے کیا اقدام کیا؟ یہ تاریخ کی امانت ہے، اسے نہ ہلائیے۔ اللہ ہماری اور ان سب بزرگوں کی خطائیں معاف فرمائے۔ ان کی موت کے بعد ان گندے کپڑوں کو اپنے حال پر رہنے دیجیے۔ 1831ء کے بعد آپ کے اکابر برسوں کہاں رہے؟ تحریک حریت پوری صدی کن ہاتھوں میں رہی؟ یہ تاریخی حقائق ہیں۔ آپ کی تف اور
Flag Counter