Maktaba Wahhabi

460 - 676
بھی یہی حال ہے، جیسے یونان، فارس، بربر اور قحطان۔ جب انساب میں مختلف راہیں پیدا ہو جائیں تو ہر مدعی اپنے دعوے کے اثبات میں قرائن و احوال اور شواہد سے اپنے دعوے کو مبرہن کرے گا، زمان، مکان اور خصائص قبائل اور نشانات سے استدلال کرے گا اور شعوب و قبائل کے خصائص کو اپنی تائید میں پیش کرے گا۔‘‘ اس کے بعد نسب اور اس کی بلندی کے متعلق مختلف ائمہ کے مذاہب کا تذکرہ فرمایا ہے۔ امام مالک سے پوچھا گیا کہ حضرت آدم علیہ السلام تک نسب کی صحت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ امام نے اسے ناپسند فرمایا اور فرمایا: ’’من أين يعلم ذلك؟‘‘ اسے اس کی صحت کا علم کیونکر ہو گا؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرف نسبت کے متعلق بھی امام نے یہی فرمایا۔ تمام انبیا کے سلسلہ نسب کو حضرت امام نے مشکوک سمجھا۔ [1] ابن اسحاق، امام بخاری اور ابن جریر طبری نے انساب بعیدہ کے ذکر کو پسند کیا اور وراثت اور عصوبت میں اس کی افادی حیثیت کا ذکر فرمایا۔ اس ضمن میں بعض آثار کا بھی ذکر کیا، جن سے نفیاً یا اثباتاً استدلال کیا جا سکتا تھا اور معد بن عدنان سے اوپر کے سلسلہ میں شکوک کا اظہار فرمایا۔ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ نے دونوں اقوال کی علی الاطلاق صحت سے انکار کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انساب بعیدہ تو شبہ سے خالی نہیں، قریبی آباء کا ضبط عرفاً اور شرعاً دونوں طرح مفید ہے، اس سے وراثت، رق اور عصوبت وغیرہ تعلقات میں مدد ملتی ہے۔ یہ تطبیق یا فیصلہ امام مالک کے اقوال میں بھی اشارتاً موجود ہے۔ تینوں مسالک پر نظر رکھنے کے بعد یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ علم الانساب کی تحقیقی حیثیت کیا ہے؟ ان انساب سے کسی شخص یا قبیلہ یا استلحاق کا فیصلہ کہاں تک قطعی اور یقینی ہو سکتا ہے؟ محترم! دلائل میں جان ہونی چاہیے، ورق سیاہ کرنے سے کیا فائدہ؟ اہل قرآن، دوست عموماً اس فن سے کافی نابلد ہیں، وہ تو اس سے کم پر بھی خوش ہو سکتے ہیں۔ آپ اپنے بڑھاپے پر رحم کریں! نسب کے تذکرہ میں بعض ناموں کی کمی یا زیادتی سے نسبت غلط نہیں ہو سکتی۔ امام شافعی کا قرشی ہونا اور امام زہری کا زہرہ بن کلاب سے تعلق تواتر سے ثابت ہے۔ اس کا ازالہ ان شبہات
Flag Counter